بائیڈن اور پوتن ایک دوسرے کو گھری گھری سنانے سے نہیں چوکے !

امریکہ اور روس کے رشتوں میں کشیدگی کے پش منظرمیں جوبائیڈن اور ولاد میر پوتن کے درمیان جینوا میں ہوئی چوٹی ملاقات دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے کا اہم ترین قدم ہے ۔بیشک اس میں متنازعہ اشوز اٹھے یاد رہے کہ پچھلے مارچ میں بائیڈن نے ایک انٹر ویو میں پوتن کو جب قاتل کہہ ڈالاتھا ، تب آپسی کشیدگی کے درمیان دونوں ملکوں میں اپنے اپنے سفیر واپس بلا لئے تھے ۔بات چیت کے دوران بھی کھانا پوری اور سادگی سے دونوں گروپ نے رضامندی کی گنجائش کم دکھائی دی ۔چاہے وہ امریکہ میں سائبر حملوں کے پیچھے انجان روسیوں کا ہاتھ ہونے کے بارے میں امریکہ کی شکایت ہو یا روس نے اپوزیشن کے لیڈر نولینی کی گرفتاری اور یوگرین کے مشرقی ساحل پر روسی فوج کی موجودگی پر امریکہ کی تشویش ہو ۔دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان ہوئے چوٹی مذاکرات میں روسی صدر ولاد میر پوتن اور امریکی صدر جوبائیڈن نے اعتراف کیا دنیا میں ایٹمی جنگ کبھی نہ ہو ۔لیکن دونوں نے کشیدگی کم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو کھری کھری سنائیں ۔بائیڈن نے روس میں اپوزیشن لیڈر ناولنی کے جیل میں بند ہونے پر کہا کہ اگر ایلکسی کی قید میں موت ہوئی تو نتیجے تباہ کن ہوں گے ۔پوتن نے امریکہ میں سیاہ فاموں سے نا انصافی اور چھ جنوری کو کیپٹل ہل میں ہوئے واقعہ پر سوال اٹھائے ۔دونوں دیشوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں مسلسل کشیدگی کے بیچ دونوں فریقین مین جینوا ملاقات میں پانچ گھنٹہ تک چلنے کا امکان جتایاتھا لیکن یہ ایک ہی گھنٹہ میں ختم ہو گئی ۔دونوں فریقین کے مشترکہ بیان کے مرکز میں نیوکلیائی عد م توسیع اشو رہا ۔جس میں کہا گیا کہ نیوکلیائی جنگ کبھی نہیں جیتی جا سکتی ۔اور کبھی نہ ہونی چاہیے اس درمیان جوبائیڈن نے پوتن کے ساتھ ہوئی ملاقات میں انسانی حقوق کے اشو پر بھی زور دیا ۔الیکسی کو جیل میں رکھنے کا اشو اٹھاتے ہوئے ان کی موت کی صورت میں خطرناک نتیجے ہونے کا بھی اشارہ دے ڈالا۔پوتن نے اس دوران کیپٹل ہل میں حملے فسادیوں کی گرفتاری کے جواز پر بھی سوال کھڑے کئے ۔سال 2018 میں پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہیلنسیکی میں ہوئی چوٹی ملاقات میں جینوا بات چیت کا موازنہ کریں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ 2016 میں امریکی چناو¿ میں روسی دخل کے الزام سے انکار پر ٹرمپ تب پوتن کے آگے جھک سے گئے تھے ۔جبکہ بائیڈن نے پوتن کے ساتھ جوائنٹ پریس کانفرنس سے منا کرکے ناراضگی کا ثبوت دیا تھا اس کے باوجود ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن کے وقت امریکہ روس کے رشتہ بہتر ہونے کی امیدہے تو اس لئے بائیدن نے ایک سنجیدہ لیڈر ہیں اور امریکہ کی ذمہ داریوں سے واقف ہیں ۔دونوں دیش نہ صرف سفیروں کو دوبارہ بحال کرنے پر راضی ہو گئے ہیں بلکہ ایٹمی جنگ کے اندیشہ ختم کرنے کے ساتھ متنازعہ اشو پر مسلسل بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔صدر جوبائیڈن نے کی یہ پہلی بین الاقوامی اہمیت کی بات چیت تھی جس میں ایک انہوں نے ایک سنجیدہ سیاست داں ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟