کورونا کے سبب دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی !

جو اپنے چلے گئے ان کا مستقل غم اور خود کے مرنے کے خوف کے درمیان لگتا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر بھی نکل گئی ہے ۔مریض کم ہونے لگے ہیں شیئر بازار میں سرمایہ کاری بڑھتی جارہی ہے لاک ڈاو¿ن کھلنے سے پھر زندگی کی جد و جہد میں شریف ہونے لگے ہیں ۔یعنی رات بھر کے برے سپنے سے جاگے ہوں ۔یہ بھی سچ ہے کہ دیش میں وبا سے اب تک ہوئی موتوں کی شرح 60 فیصد لیکن پچھلے 6 ہفتوں میں درج ہوا ہے اور وہ بھی جب بھار ت میں موتوں کی اصلی ٹیلی سرکاری نمبروںسے کئی گنا زیادہ مانی جاتی ہے ۔ادھر مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے ۔تسلی تو ہوئی ہے تازہ خبر ہے کہ برطانیہ برازیل ،جاپان ،اگلی لہر کے زد میں ہیں ۔جبکہ بھارت میں تیسری لہر کا اندیشہ ہر سائنسداں اپنے اندازے میں بتا رہا ہے ۔کہا جاتا ہے ڈیلٹا اسٹرین جو سب سے پہلے بھارت میں پایا گیاتھا ۔اس کے کیسز بھارت میں بڑی تعداد میں پائے گئے زیادہ انفیکشن ہیں اور ویکسین اس میں پوری طرح کارگر نہیں ہے ۔دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسے حالات پیدا ہوئے ہوں جب آدمی جینے کی آس اور موت کے اندیشہ کی کھائی کے درمیان محض ایک چھوٹی پکھڈنڈی پر چلنے کو مجبور ہو ۔سماجی سائیکلوجسٹ کے لئے بھی شاید ایسا کوئی دوررہا ہوگا ۔لہذا اسے بھی دیکھنا ہوگا کہ اتنے لمبے دور تک اتنے دباو¿ کے درمیان انسانی نسل میں اور تمام انسانی اداروں میں کیا تبدیلی آتی ہے ۔ادھر اسپتال میں آکسیجن یا دوا کی کمی نے دم توڑ چکے بہت سے لوگ ہیں ان کا تو ریاست اور اس کے اداروںسے بھروسہ اٹھ چکا ہے ان کنبہ ذاتی رشتوں کی کیا شکل ہوگی جن میں ڈر کے مارے نئی روح بھرنے کے پروگرام بھی شامل ہونے سے گریز کرنے لگے کورونا ختم ہو یا بنا رہے لیکن یہ دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی ۔شخصی ،تنظیمی کنبہ ذاتی اور اجتماعی رشتے زندگی کی بنیاد پر بنیں گے نہ کہ اخلاقی رشتوں پر ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟