مذہب تبدیل کرانے والوں کے آئی ایس آئی سے جڑے تار!

اتر پردیش کے انسداد آتنکواداسکوائڈ(اے ٹی ایس )دستہ نے لکھنو¿ میں دو مولاناو¿ں کو گرفتار کرکے تبدیلی مذہب کے گھناو¿نے کھیل کا پردہ فاش کیا ہے دہلی کے جامعہ نگر سے کام کررہے یہ گروہ پیسہ ،شادی ،و نوکری کا لالچ دے کر بڑی تعداد میں ہندوو¿ں کا مذہب تبدیل کرا چکا ہے ۔اے ٹی ایس کے پاس ایسے ایک ہزار لوگوں کی فہرست ہے ان میں سے زیادہ تر بہت ہی غریب بے سہارا عورتیں ہیں گروہ کو مدد کے لئے پیسہ بیرون ممالک سے آتا تھا اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا اس معاملے میں تار جڑنے کا لنک آرہا ہے ۔اس کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے گرفتار ملزمان کے نام مفتی جہانگیر عالم اور عمر گوتم ہیں ۔ان میں سے عمر خود ہندو سے مسلمان ہوا تھا ۔اے ڈی جے لائن آرڈر پرشانت کمار نے بتایا کہ تین جون کو غازی آباد کے ڈاسنا مندر سے دو مشتبہ لڑکے وپل ،وجے ورگیہ و کاشف کی گرفتاری کے بعد اس گروہ کا پتہ چلا ان کی نشاندھی پر جہانگیر اور عمر گوتم کو پوچھ تاچھ کے لئے لکھنو¿ ہیڈ کوارٹر بلایا گیا تھا اور لمبی پوچھ تاچھ کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا انہوں نے بتایا گروہ میں کئی اور شامل ہونے کی تفتیش جاری ہے ۔تبدیلی مذہب کے بعد کئی لڑکیوں کی شادی بھی کرائی جا چکی ہے ۔یوپی کے علاوہ دہلی ،ہریانہ کیرل ،آندھرا پردیش اور مہاراشٹر میں بھی ان کا جال پھیلا ہوا ہے ۔شروعاتی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ یہ گروہ ایک سال میں 250 سے 300 لوگوں کو مسلمان کرچکا ہے ۔تبدیلی الگ سے باقاعدہ ایک کانفرنس میں ہوتی تھی تاکہ ان کے ذریعے دیگر لوگوں کو مسلمان بنایا جا سکے ان کے پاس سے اے ٹی ایس نے ایک ہزار عورتوں اور بچوں کی فہرست برآمد کی ہے ۔اسلام قبول کرنا اور نکاح وغیرہ کا ثبوتی دستاویز دہلی کے مفتی ،قاضی جہانگیر عالم قاسمی کے ذریعے جاری کئے جاتے تھے اے ٹی ایس کے مطابق تبدیلی مذہب کے بعد عورتوں کی شادی کرائی جاتی تھی ۔دونوں متھرا،وارانسی اور نوئیڈا میں مذہب بدلوا چکے ہیں ۔تبدیلی کرانے والی انجمن اسلامک دعوت سینٹر نے گونگے بہرے بچوں اور عورتوں و غریب طبقہ کے لوگوں کو پیسہ اور نوکری وگیرہ کا لالچ دے کر ان کو اپنا شکار بنایا دیش کی ٹیم گنجان اور دور دراز علاقوں میں گئی جہاں عیشائی مشنریوں پر بھی اس طرح کے الزام لگتے رہے ہیں وہ قبائلیوں کے ہاتھ میں مٹھی بھر چاول دے کر گلے میں کراس کا نشان لٹکا دیتے ہیں ۔یہ صاف ہے کہ بھار میں زبردستی یا لالچ میں تبدیلی مذہب کرانا غیر قانونی ہے ۔ایسی صورت میں تبدیلی مزہب کرانے سے نہ صرف سیدھے سیدھے بھارت کے قانون کو چنوتی دے دی جاتی ہے بلکہ دوسرے مذہب کے جذبات کو بھی ارادتاً تھینس پہونچا دی جاتی ہے زبردستی تبدیلی مذہب کا سیاسی مفاد بھی لگتا ہے اس طرح کے واقعات سے جہاں فرقہ وارانہ ذہنیت کو بڑھاوا ملتا ہے تو ساتھ ہی فرقہ وارانہ پولارائزیشن بھی ہوتا ہے اس لئے دیش کے فرقہ وارانہ بھائی چارے کو بگاڑنے کے لئے اسطرح کے واقعات پر لگام لگنا بہت ضروری ہے اس سلسلے میں مسلم دانشوروں کو بھی آگے آنا چاہیے ایسے قدموں و پروگراموں سے جس سے دوسرے طبقہ کو ٹھینس پہونچتی ہواس کو روکنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟