عمران خان کے بعد اب جنرل باجوا!

پاکستان کے فوج کے چیف جنرل قمر جاوید باجوانے بھارت کے ساتھ رشتوں کو لیکر اچانک اپنا جو رخ بدلا ہے اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بات کہی ہے اگر وہ اس پر ایماندار ہیں تو یہ اچھی بات ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے لیکن جنرل باجو ا کی بات پر یقین کر نا اس لئے مشکل ہے کیونکہ بھارت کے خلاف جس کٹر رویئے کو پاکستان نے اپنا یا ہوا ہے ا س کی کڑی یہی جنرل باجوا ہیں ۔ پچھلے کچھ وقت میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی اسی طرح کی باتین کر کے یہ جتاتے رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات ہونے چاہئے خاص بات یہ ہے کہ جنرل باجوا کی طرف سے پچھلے دو مہینے میں بھارت سے بات چیت کی یہ تیسری پیشکش ہے جو اسلام آبادڈئیلاک کے نام سے منعقد ہوئی تھی اس میں ملک و بیرونی ملک کے کئی حکمت عملی کے ماہرین و سفارت کار موجود تھے بھارت پاک کے درمیان پچھلے مہینے ہی کنٹرول لائن پر جنگ بندی پر رضا مندی بنی ہے عمران خان نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ پر امن رشتے بناتا ہے تو اس کا اسے سیاسی فائدہ ملے گا بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی سے بھارت کو پاکستان جغرافیائی راستے کے وسائل اور مشرق وسطیٰ سیدھے پہونچنے میں مدد ملے گی عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا تھا تب وہ بڑھ چڑھ کر ایسی باتیں کرتے تھے اور موقعہ ملتے ہی یہ کہنے سے نہیں چوکتے تھے کہ رشتوں میں فروخت کیلئے اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا لیکن وہ اپنے وعدوں اور دعووں پر کتنے کھرے اترے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کا اچانک سے دل میں کیسے نرمی اگئی کیونکہ اسے لگنے لگا ہے کہ پڑوسی دیش بھارت کے ساتھ دوستانہ رشتے رکھنا چاہئے ؟ کیا دنیا کے سامنے اپنی بری ساخت کو صاف کرنے کیلئے وہ ایسا کر رہا ہے یا وہ پھر وہ کسی کے دباو¿ میں اس حکمت عملی پر چل رہا ہے ؟ بتا دیں کہ پاکستان کی پچھلی سرکاریں بھی امن کی باتیں کرتی رہی ہیں اس کے بعد پلوامہ حملہ ہوگیا آئے دن کشمیر میں پاک حمایتی آتنکی تنظیمیں حملے کرواتی رہی ہیں ۔ بھارت پاکستان کے درمیان بڑا اشو پاک اسپونسر دہشت گردی ہے ان کی سر زمین پر ان کی مدد سے دہشت گرد تنظیم پھل پھول رہی ہیں بھارت بار بار ان دہشت گروپوں کی حرکتوں کا ثبوت دیتا رہا ہے لیکن پاکستان نے ان کو ٹال دیاہے لمبے عرصے پاکستان بھارت کو گہرے زخم دیتا رہا ہے ایسے میں علاج کی وہ پر امن دوہائی دینے لگے تو حیرت پیدا ہونا لازمی ہے آخر بھارت کیسے بھول سکتا ہے پلوامہ کے حملے کو یا پارلیمنٹ کمپلیکس سے لیکر ممبئی تاج ہوٹل کرائے آتنکی حملوں کے ملزم آج بھی پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی سرپرستی میں موج مستی کر رہے ہیں بھارت نے سبھی کے خلاف پاکستان کو پختہ ثبوت دیئے لیکن کسی کے خلاف پاکستان نے اب تک کوئی کاروائی نہیں کی ہے ایسے میں پاکستان یہ کیسے توقع کر رہا ہے کہ بھارت ساری پچھلی باتوں کو بھو ل کر اب آگے بڑھے اور اس کے ساتھ اچھے رشتے بنائے؟ گھریلو محاذ پر عمران سرکار پہلے ہی مشکلوں سے گھری ہے اپوزیشن پارٹیوں نے مظاہروںسے سرکار کی نیند اڑا رکھی ہے معیشت کا اشو اب بڑھ چکا ہے شاید اسلئے اب جنرل باجو اکو بھارت کے ساتھ اچھے رشتوں کا دماغ پر شوسا چھایا ہوا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟