کہانی ایک سنکی جنرل کی! میانمار میں تختہ پلٹ

پڑوسی ملک میانمار میں فوج نے پیر کے روز تختہ پلٹ کر دیا اور دیش کی سرکردہ لیڈر آنگ سانگ سوچی سمیت کئی لیڈروں کو حراست میں لے کر نظر بند کردیا اور خود کو بابائے قوم کہنے والے میانمار کی آنگ سانگ سوچی کو ملی بھاری حمایت برداشت نہیں کر پائی ۔چونکہ پچھلے نومبر میں ہوئے عام چناو¿ میں سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھاری اکثریت حاصل کی تھی اورپارٹی کو 80فیصد سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں ۔دیش میں اگلے سال کے لئے ایمرجنسی لگا دی گئی فوج کے ٹی وی چینل نے بتایا کہ ملیٹری نے دیش کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور اس تختہ پلٹ کو انجام دینے والے فوج کے بڑے جنرل آنگ لائن نے دیش میں اقتدار سنبھال لیا ہے ۔تختہ پلٹ کے کچھ گھنٹے بعد ہی بیان جاری ہوا کہ اب آئن سازیہ،انتظامیہ اور عدلیہ کی ذمہ داری جنرل لائنگ کے ہاتھوں میں رہے گی ۔ملیٹری کمانڈر ان چیف لائنگ اب بین الاقوامی برادری کے نشانہ پر آگئے تھے جب انہوں نے میانمار کے رخائن صوبہ سے روہنگیوں کو نشانہ پر لیتے ہوئے دیش نکالا کر دیاتھا2015میں آنگ سانگ سوچی کی میانمار سرکار میں اہم رول نبھانے سے پہلے آنگ لائن نے بی بی سی کو ایک انٹر ویو میں بتایا تھا کہ یہاں شہری انتظامیہ کے لئے کوئی طے ڈیڈ لائن نہیں ہوگی ۔اور یہ سرکار پانچ سال تک چل سکتی ہے ۔یا دس سال رہ سکتی ہے ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا لائن کی طاقت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہویں نے اہم ترین وزارتوں ڈیفنس سرحدی امور اورگھریلو امور کے لئے وزیروں کی تقرری کر سکتے ہیں ۔سوچی کے ہاتھ میں صرف شہری انتظامیہ میں قانون بنانے کا ہی اختیار ہے فوج کے لئے پارلیمنٹ کی چوتھائی سیٹیں رزرو ہیں اور سرکار مین وزیردفاع اور سرحدی امور کے وزیر کی بھی تقرری فوج کا چیف کرتا ہے اور اس کے علاوہ آئینی تبدیلیوں پر ویٹو کا حق رکھنے کے علاوہ کسی بھی چنی ہوئی سرکار کا تختہ پلٹ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔آئین نے سوچی کو صدر بننے سے منع کر دیا چونکہ ان کے برطانوی شوہر کے ساتھ بچے تھے ۔جو غیر ملکی شہری ہیں ۔میانمار میں کئی سال بعد جمہوریت بحال ہوئی تھی اور تقریباً پچاس سال تک دیش میں فوجی تانہ شاہی تھی آنگ سانگ سوچی جمہوریت بحالی کے لئے جد و جہد کرتی رہیں اور پندرہ سال جیل میں بھی رہیں ۔اب میانمار میں اچانک ہوئے تختہ پلٹ پر ماہرین بھی حیران ہیں ۔نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ایشیائی ریسرچ کے ہیڈ گیراڈ میکارتھی کہتے ہیں دیش کا موجودہ سسٹم فوج کے لئے کافی فائدہ مند ہے فوج کا سرکار پر کنٹرول ہے ۔غیر ملکی سرمایہ آرہا ہے ۔فوج کو جنگی جرائم کے چلتے سیاسی سرپرستی حاصل تھی ۔اس کے باوجود اقتدار کا تختہ پلٹ کیا گیا تاکہ غیر چینی انرنیشنل ساتھیوں کو کنارے کیا جا سکتے ساتھ ہی فوج حمایتی اپوذیشن کی ڈور اور مسلسل دوسری بار آن سانگ سوچی کی پارٹی کے بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے پر فوج فکر مند ہے ۔اس لئے دیش میں ایک سال کے لئے ایمرجنسی لگا دی گئی ہے ۔ملک میں ہوئے واقعات پر امریکی صدر جوبائیڈن نے میانمار پر نئی پابندی لگانے کی وارننگ دے دی ہے ۔اور فوج کے ذریعے تختہ پلٹ کر آنگ سانگ سوچی کو حراست میں لیا جانا اور ایمرجنسی ڈکلیر کرنا دیش میں اقتدار کے جمہوری منتقلی پر سیدھا حملہ ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟