جو سچائی سے ڈرتے ہیں ،وہ سچے صحافیوں کو گرفتار کرتے ہیں!

یہ انتہائی تکلیف دہ اور کچلنے کی بات ہے کہ سرکار اب صحافیوں کو ان کی رپورٹنگ کے لئے نشانہ بنا رہی ہے کچھ دن پہلے ہی کئی سینئر مدیروں پر دیش سے بغاوت کا مقدمہ درج کیاگیا ۔یہ سلسلہ ختم نہیں ہواکہ اب ایک اور سینئر مدیر پر یوپی پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے ۔9وائر کے ایڈیٹر سدھارتھ ورد راجن پر یوم جمہوریہ پر ٹریکٹر ریلی کے دوران ایک کسان کی موت سے وابسطہ خبر ٹوئٹ کرنے کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ان پر لوگوں کو بھڑکانے ، امن و قانون سسٹم کو بگاڑنے کی کوشش اور بلوا پیدا کرنے والا بیان دینے کے الزامات لگائے گئے ہیں ۔دہلی میں جس کسان کی موت ہوئی تھی وہ یوپی کے رام پور کا باشندہ تھا ،ورد راجن نے ایک رپورٹ ٹوئٹ کی تھی جس میں کسان کے خاندان نے رد عمل ظاہر کیا تھا اس میں رشتہ داروں نے الزام لگایاتھا کہ کسان کو گولی ماری گئی ہے اور لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں میں سے ایک نے ان سے کہا تھا کہ ڈاکٹرو ںکے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اس سلسلے میں دہلی پولیس کیطرف سے کہا گیا کہ کسان کی موت ٹریکٹر پلٹنے سے ہوئی تھی ۔سدھارتھ ورد راجن کے ٹوئیٹ پر رام پور کے ڈی ایم نے جواب دیا اور کہا کہ ہم آپ سے صرف اور صرف عقائد پر بات کرنے کی ہدایت کرتے ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ ہماری درخواست آپ کے ذریعے ایمانداری سے لی جائے گی ۔شکریہ ! ڈی ایم نے ایک کسان کی موت پر سرکاری بیان بھی ٹوئٹ کیا اس سے پہلے کانگریسی لیڈر ششی تھرور اور چھ صحافیوں پر نوئیڈا پولیس نے دہلی میں کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد کو لیکر بغاوت و دیگر الزامات میں مقدمہ درج کیا تھا ۔کسان آندولن کی رپورٹنگ کررہے پورٹل سے جڑے فری لانس صحافی مندیپ پنیا کو اتوار کو گرفتار کیا اور دوپہر کو میٹرو پلوٹین مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جہاں ان کو 14دن کی جوڈیشیل حراست میں بھیج دیاگیا ان کے علاوہ پولیس نے ایک دوسرے صحافی دھرمندر کو بھی پکڑا اور انہیں اتوار صبح 5:30بجے چھوڑ دیا گیا ۔مندیپ کی گرفتاری پر پولیس کا کہنا ہے کہ جمع کے روز کسانوں اور مقامی لوگوں کے درمیان ٹکراو¿ کے بعد سنیچر وار کی صبح ہی احتیاطاً بغیر شناختی کارڈ کے کسی کو بھی اس علاقہ میں داخل ہونے کی ممانعت تھی ۔سنیچر کی شام 7بجے مندیپ پنیا موبائل سے ویڈیوریکارڈ کرنے لگا تب پولیس والوں نے ایسا کرنے سے روکا اور پوچھ تاچھ کی تو اس نے خود کو پترکار بتایا لیکن وہ کوئی پہچان پیش نہیں کر سکا ۔اور شبہہ کی بنیاد پر اسے پوچھ تاچھ کی گئی تھی تو وہ پولیس ملازمین کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے لگا ۔اس کے خلاف اہل پور تھانہ میں مقدمہ درج کیا گیا ۔صحافیوں پر پولیس کاروائی کی انڈین ویمنس اسیوسی ایشن اور دیگر انجمنوں نے واقعہ کی مذمت کی اور تینوں نے کہا پولیس کاروائی یہ پریس کی آزادی کے حق میں مداخلت ہے اتوار کو سبھی صحافی انجمنوں نے بیان جاری کرکے کہا کہ دھرمیندر کو تو بعد میں رہا کر دیا گیا مگر دک کارواں سے جڑے فری لانس صحافی مندیپ پنیا پر بے رحمی کے ساتھ طاقت کا استعمال کیاگیا ہے ۔اور کسی کو یہ جانکاری نہیں دی گئی ہے وہ کہا ں ہے ۔انہوں نے الزام لگایا پولیس کے ذریعے گرفتار مندیپ رپورٹنگ کررہے تھے ایسے میں انہیں گرفتار کرنا غلط ہے ۔مندیپ پنیا کی گرفتاری کے بعد اپوذیشن کے کئی لیڈروں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی رہائی کی مانگ کی ۔کانگریس کے نیتا راہل گاندھی نے پنیا کی گرفتاری پر طنز کرتے ہوئے کہا جو سچ سے ڈرتے ہیںسچے پترکاروں کو گرفتار کرتے ہیں ۔راشٹریہ لوک دل کے لیڈر جینت چودھری نے کہا انٹرنیٹ بند کرنے اور صحافی مندیپ پنیا کو گرفتار کر ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی سازش رچی جارہی ہے ہریانہ کہ کانگریس لیڈر دپیندر ہڈا نے روہتک کے صحافی پنیا کو جس طرح سے پولیس نے حراست میں لیا ہے اس سے کئی سوال کھڑے ہو رہے ہیں صحافیوں کی گرفتاری کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟