میڈیا کو ڈرانے و دھمکانے کی کوشش!

کسان ٹریکٹر ریلی کے دوران تشدد بربھڑکانے کے معاملے میں کانگریس نیتا ششی تھرور سمیت کئی صحافیوں کے خلاف بغاوت کا کیس درج کردیا گیا ہے جو نوئیڈا کے تھانے سیکٹر 20میں درج ہوا رپورٹ کے مطابق الزام ہے کہ سینئر صحافی راجدیپ سر دیشائی ،مرنال پانڈے ،ظفر آغا،پارس ناتھ ،ونودنے کسان ٹریکٹر مارچ کے دوران اکسانے والے کمینٹ سوشل میڈیا پر ڈالے تھے ان لوگوں نے جان بوجھ کر کسانوں کو مستعل کرنے کیلئے اپنے اخبارت کے ذریعے ایسی خبرین شائع کی ہیں جن کی وجہ سے دہلی این سی آر میں کسانوں نے تشد د برپا کیا ہے ساتھ ہی مدھیہ پردیش پولس نے بھی ششی تھرور اور چھ صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے وہیں ایڈیٹر گلٹس آف انڈیا سینئر مدیروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے سخت مذمت کی تھی ایک بیان میں کہا ہے یہ کاروائی میڈیا کو ڈرانے دھماکنے کی کوشش ہے گلڈ نے مانگ کی ہے ایسے معاملے فوراً واپس ہوں اور میڈیا کو بغیر کسی ڈر کے آزاد ی کے ساتھ رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی جائے ایک مظاہرین کی موت سے جڑی واردات کی رپورٹنگ کرنا موقع واردات اور اس کی جانکاری اپنے ذاتی سوشل میڈیا ہینڈل پر اور اپنے اخبارات میں دینے پر صحافیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا جن صحافیوں کے نام ایف آئی آر میں ہیں وہ اوپر ذکر کئے گئے ہیں ۔ایک گمنام شخص کے خلاف بھی ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے ایڈیٹر س گلڈ س نے کہا یہ خیا ل رہے کہ مظاہر ہ اور کاروائی والے دن موقع واردات پر موجود چشم دید گواہوں اور پولس کے جانب سے بہت سی اطلاعات ملی اور صحافیوں کے لئے ایک فطری بات تھی کہ وہ ان معلومات کی بنیا د پر ایک رپورٹ بنائیں یہ صحافت کے قواعد کے مطابق ہی تھی گلڈ نے کہا کہ وہ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے پولس کے ڈرانے دھمکانے کی طریقے کی کاروائی پر مذمت کرتے ہیں ۔ جنہوں نے کسانوں کے مظاہروں اور ریلوں اور تشدد کی رپورٹنگ کرنے پر مدیروں اور صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی ان سینئر صحافیوں اور مدیروں کے سابق اور موجودہ عہدے دار بھی شامل ہیں گلڈ نے صفائی پیش کی ہے کہ ان ایف آئی آر میں الزامات لگائے گئے ہیں کہ ٹویٹ ارادةًافسوس ناک اور لال قلعہ پر ہوئے تشدد کا سبب بنے گلڈ نے پہلے کی گئی اپنی مانگ دہرائی کی سپریم کورٹ کو اس بات پر بھی نوٹس لینا چاہئے کی بغاوت جیسے کئی قوانین کا استعمال اظہار رائے کی آزادی میں خلل کیا جارہا ہے یہ یقینی کرنے کیلئے گائیڈ لائنس جاری کئے جائیں کی اس طرح کے قوانین کے کھلم کھلا اور پریس کی آزادی کے خلاف ہے اور نظریات کی آزادی پر ڈنڈا چلانے کے واقعات میں حال ہی میں بہت تیزی آئی ہے یہ بے حد خطرناک ٹرینڈ ہے بد قسمتی سے سرکاریں یا تو اس کو بڑھاوا دے رہی اب جان بوجھ کر نظر انداز کر رہی ہیں لیکن اگر اس ٹرینڈ کو نہیں روکا گیا تو ہندوستان کی جمہوریت چھلنی ہوجائے گی ۔ کیا 21صدی میں ترقی پسند بھارت کی یہی پہچان ہونی چاہئے؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟