سانبھلی کی دلیر سیما ڈھاکا!

ہم آئے دن دہلی پولیس کو کوستے رہتے ہیں لیکن جب وہ ہمت اور بہادر کا ثبوت دیتی ہے تو ہم اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتے اب آپ سانبھلی سمیا ڈھاکہ کی ہی مثال لے لیجئے ۔مغربی اتر پردیش کے پردے والے ماحول میں پلی بڑی اس لڑکی نے بہادی کا وہ کام کیا ہے جس کی تعریف کرنی چاہیے ۔سانبھلی کی یہ شرمیلی سائیکل سے پانچ کلو میٹر اکیلے سسولی کے ڈگری کالج آیا جایا کرتی تھی ۔گھر سے آدھے راستے اس کے والد بھی سائیکل سے جاتے تھے تاکہ لڑکی کی نگرانی کر سکیں ۔گریجویشن کے دوران کالج کی لڑکیوں کے درمیان دہلی پولیس کافارم بھرنے کی خواہش جاگی اس شرمیلی لڑکی نے دہلی آو¿ٹنگ کے لئے کانسٹبل کا فارم بھر دیا ۔ماں باپ نے پولیس جوائن کرنے سے روکا لیکن وہ نہیں رکی ....آج سانبھلی کی یہ ہی شرمیلی لڑکی سیما ڈھاکہ (33سال )دہلی کی دلیر بن چکی ہے ۔جو ایک فارمل ہی نہیں بلکہ مرد پولیس والوں کے لئے بھی ایک مثال بن چکی ہے ۔بادلی تھانہ میں تعینات سیما ڈھاکہ بتاتی ہے کہ دہلی پولیس کمشنر ایس این سریواستو نے نابالغ گمشدہ بچوں کو ڈھونڈنے پر زور دیا تو انہیں لگا کہ وہ اس کام کو بخوبی انجام دے سکتی ہے ۔لہذا ایس ایچ او بادلی آشیش دوبے کے سامنے انہوں نے اپنی خواہش رکھی کرائم برانچ کے تیز ترار جانباز افسروں مین شمار رہے دوبے نے اعلیٰ افسروں سے منظوری لے کر سیما کو یہ کام سپرد کر دیا ۔سیما نے دن رات محنت کرکے 75دن میں 76گمشدہ بچوں کو تلاش کر ڈالا اور ان کے رشتہ داروں سے ملا دیا ۔ان میں 56بچے 14سا ل کی عمر کے تھے گمشدہ بچوں کو ڈھونڈنے کے لئے کمشنر کی طرف سے پانچ اگست کو آو¿ٹ آف ٹرن ترقی کی اسکیم آنے کے بعد انہیں خود پرکیسے بھروسہ ہوا کہ وہ اس کام کو بخوبی انجام دے سکتی ہے ۔سیما کا کہنا ہے ایمرجنسی ڈیوٹی کے دوران ایک نابالغ لڑکی کو بھگا کر لے جانے کی کار ملی و ہ اسٹاف کے ساتھ وہاں پہونچی تو لڑکی کے دادا دادی رو رہے تھے ۔ملزم لڑکا اور نابالغ لڑکی الگ الگ مذہب کے تھے اس لئے ماحول خرا ب ہونے کا خطرہ بھی تھا لڑکے کی سی ڈی آر نکالی تو آخر کار ایک آٹو والے کی تھی اس کے ذریعے دوسرا فون نمبر ملا جس کے سہارے وہ لڑکی کے رستہ داروں اور ایک سپاہی کے ساتھ کانپور دیہات پہونچی ۔لڑکے کے گاو¿ں پہونچ کر انہوں نے پوچھ تاچھ کے لئے لڑکے کی ماںکو حراست میں لیا اور لڑکی کو چوبیس گھنٹے کے اندر صحیح سلامت برآمد کیا لڑکے کو بھی گاو¿ں والوں نے بچہ دے کر دہلی لے آئی ۔سیما کہتی ہیں اس کیس کی وجہ سے ان کاخود پر بھروسہ بڑا ۔ان کے شوہر بھی اس سے شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے ۔پولیس مرد پولس ملازم کو لڑکیوں سے تفتیش کرنے میں تھوڑی دکت آتی ہے ۔مہیلا ہونے کے ناطے وہ بے دھڑک کسی سے بھی پوچھ تاچھ کرلیتی ہے اس لئے وہ اپنے ٹارگیٹ کو پورا کرنے میں کامیاب رہی وہ یاد کرتی ہے کہ جب وہ سائیکل سے کالج جاتی تھی تو گاو¿ں کے لوگ کہا کرتے تھے کہ اکیلی لڑکی کو اس کے ماں باپ کہا ں بھیج رہے ہیں ۔اس کے ماں باپ دہلی پولیس جوائن کرنے کے لئے راضی نہیں تھے لیکن ٹریننگ کے لئے خود دہلی چھوڑ کر گئے تھے وہ ان کے اشتراک کو بھی یاد کرتی ہے ۔کمشنر نے آو¿ٹ آف ٹرن پروموشن دے کر اے ایس آئی بنا دیا ہے ۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟