ہم اسے ہند و مسلم نہیں دیکھتے :ہائی کورٹ

لو جہاد لفظ کا استعمال ہندو گروپوں کا ایک طبقہ ان مسلم لڑکوں کے لئے کرتا ہے جو پیار اور شادی کی آ ڑ میں عورتوں کو مبینہ طور سے تبدیلی مذہب کے لئے مظبور کرتے ہیں ۔ سال دو ہزار نو میں کیرل اور کرناٹک کے کیتھولیک اور ہندو گروپوں نے الزام لگایا تھا کہ ان کے فرقے کی عورتوں سے زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرکے ان کا مذہب بدلا جا رہا ہے اس کے بعد لو جہا د لفظ کا پہلی بار استعمال کیا گیا ۔ لیکن 2019میں اتر پردیش کے ضمنی چناو¿ کے دوران یہ لفظ رائج ہو ا جب بھاجپا نے اسے وسیع طور پر اٹھایا اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے والے جوڑوں کے لئے حالات کافی مشکل بھرے رہے ہیں انہیں اپنی شادی کو سماجی طور پر تسلیم کرانے اور خوش رہنے کے لئے کافی پریشانی کا سامنہ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسے جوڑوں کو لو جہاد لفظ کے بڑھتے چلن سے اب بے چینی ہورہی ہے کئی جوڑوں نے کہا ہے اور کئی ریاستی حکومتوں نے لو جہاد کے خلاف قانون بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس میں الگ الگ مذہب کے ماننے والے جوڑوں کے لئے چیلینج بڑھ رہے ہیں ۔ دہلی میں رہنے والی اور ہندو شخص سے شادی کرنے والی مینا شاہ العمید نے کہا کہ لو جہاد اپنے آپ میں مذاق ہے ۔کوئی کیسے کسی رشتے میں جہا د لا سکتا ہے ؟ ازداجی معاملوں میں مذہب کی بنیاد پر کیسے پابندی لگائی جا سکتی ہے ؟ اگر قانون لایا جاتاہے تو ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ اسے دیکھے گا اور لفظ کے بارے میں صاف کرے گا اگر ہم عدالت اور قانو ن کی بات کریں تو الہٰ آباد ہا ئی کورٹ نے دو الگ الگ مذہب کے بالغ لڑکے اور لڑکی کے لو شادی کے معاملے میں ایک اہم فیصلہ سنایا ہے ہائی کورٹ نے کہا ہے دو اپنے پسند کی زندگی کا ساتھی چننے کا حق ہے قانون دو بالغ اشخاص کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ ہم جنس یا اپوزیٹ سیکس کے ہی کیوں نہ ہوں عدالت نے صاف کیا کہ ان کی پر امن زندگی میں کوئی شخص یا خاندان دخل نہیں دے سکتا یہاں تک کہ ریاست بھی دو بالغ لوگوں کے رشتوں کو لیکر اعتراض نہیں کر سکتی ۔ کشی نگر وشنو پورہ کے باسندے سلامت انصاری اور دیگر تین کی طرف سے داخل عرضیوں پر جسٹس پنکج اور جسٹس ویویک اگروال کی ڈویژن بنچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ پرینکا کھروار عرف عالیہ کے والد کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شادی کے لئے تبدیلی مذہب ممنو ع ہے۔ ایسی شادی قانون کی نظر میں جائز نہیں ہے ۔لیکن عدالت نے کہا شخص کی پسند کا خیال اور پسند کی آزادی کے حق کے خلاف ہے ۔پرینکا کھروار اور سلامت کو عدالت ہندو مسلم کے طور سے نہیں دیکھتی ہے بلکہ وہ دو نوجوانوں کی شکل میں دیکھتی ہے آئین کی آرٹیکل 21اپنی خواہش سے کسی شخص کے ساتھ رہنے کی آزادی دیتا ہے اس لئے اس میں مداخلت نہیں کرسکتے ۔عدالت نے کہا اس معاملے میں پاسکو ایکٹ بھی لاگو نہیں ہوتا عدالت نے عرضی گزاروں کے خلاف درج ایف آئی آر بھی خارج کردی سرکار کی طرف سے یہ اعترا ض ظاہر کیا گیا تھا کہ اس کے سابق نور جہاں اور پریانچھی عرف سامرین کے معاملے میں شادی کے لئے مذہب تبدیل کرنے کو ناجائز مانا ہے جس پر عدالت نے نا اتفاقی ظاہر کی وہیں یہ بھی امید جتائی کی بیٹی گھر والوں کے لئے سبھی مناسب عزت و احترام کا رویہ اپنائے گی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟