اظہار رائے کی آزادی ہمارے آئین کا بنیادی جز ہے !

xانسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والی لیفٹ فریم کی کیرل حکومت نے پچھلے مہینے پولس ایکٹ کو اور زیادہ موثر بنانے کے لئے اس میں دفع 118جوڑنے کے فیصلے نے سب کو چونکا دیا اس کے تحت اگر کوئی شخص سوشل میڈیا کے ذریعے کسی شخص کی توہین یا بے عزت کرنے والا کوئی میٹر ڈالتا ہے یا اسے شائع کرتا ہے یا اسے نشر کرتا ہے تو اس پر 10ہزار کا جرمانہ یا پانچ سال کی قید یا دونوں ہوسکتے ہیں ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ سوشل میڈیامیں عورتوں اور بچوں کو اذیت پہونچانے کے واقعات جس طرح سے بڑھے ہیں انہیں کنٹرول کرنے کے لئے کیرل پولس کے ایکٹ 118Aدفعہ جوڑی جارہی ہے جس میں قصور وار شخص کو پانچ سال یا سزا رکھی گئی ہے اس آرڈیننس کو گورنر نے منظوری دے دی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آرڈیننس میں سوشل میڈیا کا دیش کو خاص طور سے تصریح نہیں کی گئی ہے اور اس میں صرف میڈیا لفظ لکھا گیا ہے ایسے میں میڈیا سمیت مختلف طبقوں کے لئے تسویش کی بات فطری ہے اس کا ارادہ قومی دھارا کے میڈیا سمیت ریاستی حکومت کے حریفوں کی آواز دبانا ہے۔جبکہ عورتوں بچوں کے خلاف جرم کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے آئی پی سی اور پاس کو ایکٹ کے تحت کافی سہولیات ہیں ۔ بیشک لیفٹ کی کیرل سرکار نے بھاری احتجاج کے بعد متنازع مجوزہ آرڈیننس کو واپس ضرور لے لیا ہے لیکن اس میں جس طرح سے بیان عام آدمی کے سوشل میڈیا کے پوسٹ کولیکر کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کا پولس کو من مانا اختیار دیا گیا ،اس کی منشا پر سوال اٹھنا فطری تھا اب سرکار کے اس فیصلے نے الگ الگ طبقوں نے نقطہ چینی کی تو کیرل سرکار نے متنازع ترمیم پر روک لگا دی ہے وزیر اعلیٰ پی وجین نے کہا کہ ان کی سرکار کا ارادہ ابھی اس ترمیم قانون کو نافذ کرنے کا نہیں ہے کیونکہ اے ڈی ایف کے حمایتوں اور جمہوریت کی حفاظت کے لئے کھڑے لوگوں نے اس ترمیم کو لیکر تسویش ظاہر کی تھی ۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمارا ارادہ ترمیم شدہ کیر ل پولس ایکٹ کو لاگو کرنے کا نہیں ہے اس سلسلے میں اسمبلی میں مفصل غور خوص ہوگا اور مختلف لوگوں کی رائے سننے کے بعد آگے قدم اٹھائیںگے اپوزیشن پارٹیوں نے بھی آرڈیننس کے ذریعے لائے گئے ترمیم کی نقطہ چینی تھی اور کہا تھا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی کے خلاف ہے اس سے پہلے بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل سیتا رام یچوری نے کہا کہ کیرل پولس ایکٹ ترمیم آرڈیننس پر دوبارہ غور کیاجائے گا سیاسی طوفان کے درمیان یچوری نے ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے در اصل یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہمارے آئین کا بنیادی جز ہے بیشک اس کے ساتھ کچھ بندشیں ہیں لیکن اس سے سرکاروں کو اس من مانی تشریح کا حق نہیں مل جاتا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟