چین کی مسلم آبادی پر بھی سخت قدم اٹھائے جانے لگے

چینی حکومت مسلم آبادی پر لگام کسنے کے اپنی مہم کے تحت ایگر اور دیگر مسلم اقلیتوں کے درمیان پیدائشی شرع کو گھٹانے کیلئے سب سے سخت قدم اٹھارہی ہے اتنا ہی نہیں دیش کے ہان شہری اکثریتی افراد کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے لئے راغب کیا جا رہا ہے سرکاری اعداد و شمار اورماضی میں حراستی کیمپوں میں رکھے گئے 30لوگوں اور ان کے خاندان کے افراد کیلئے دی گئی جانکاری کی بنیا دپر یہ نتیجے سامنے آئے رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کبھی کبھی کوئی خاتون زبردستی اسقاط حمل انسدادکے بارے میں بولتی تھی لیکن یہ چلن پہلے کے مقابلے زیادہ بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے شروع ہو چکا ہے شنگ زیان صدر مغربی علاقے میں چلائی جارہی مہم کو کچھ ماہرین ایک قتل عام قرار دے رہے ہیں جانچ کے دوران لئے گئے انٹر ویو اور اعداد شمار بتاتے ہیں کہ اس صوبے میں اقلیتی فرقے کی عورتوں کو باقاعدہ طور پر حمل کی جانچ کرانے کیلئے کہا جاتا ہے اتنا ہی نہیں انہیں پراپرٹی جیسی اعلیٰ لگوانے و نس بندی کرانے اور لاکھوں عورتوں کا حمل گرانے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے دیش میں جہاں آئی یو ڈی کے استعمال اور نس بندی می کمی آئی ہے وہیں سینگ زیان صوبے میں یہ تیزی سے بڑھ رہی ہے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ بچے ہونا حراستی کیمپوں میں لوگوں کو بھیجے جانے کی بڑی وجہ ہے ۔حراستی کیمپوں میں چین یا اس سے زیادہ بچوں کے ماں باپ کو ان کے خاندانوں سے تب تک الگ رکھا جاتا ہے جب تک وہ بڑا جرمانہ نہیں بھر دیتے ماں باپ کو اس بات سے واقف کرایا جاتا ہے کہ زیادہ بچے پیدا ہونے پر انہیں حراستی کیمپوں میں بھیج دیا جائیگا شنگ زیان کے جن علاقوں میں اوئی گر آبادی اکثریت میں وہاں 2015سے 2018کے درمیان شرع پیدائش میں 60فیصدی گراوٹ ائی ہے پورے شنگ زیان صوبے کی بات کریں تو پچھلے سال زیادہ تر آبادی 24فیصدی گھٹی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟