مزدوروں سے ٹرین کرایہ وصولنے پر سیاسی گھمسان

کانگریس صدر سونیا گاندھی نے پیر کی صبح پرواسی مزدوروں کی گھر واپسی کے لئے ریل کرایہ ادا کرنے کیلئے کانگریس کی طرف سے اعلان کر کے ایک بڑا سیاسی داو ¿ کھیلا ہے ذرائع کے مطابق سونیا کے اس ماسٹر اسٹوک سے پہلے سونیا نے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی سے لمبی بات چیت کی راہل نے اس پر کورونا کو لیکر تشکیل کانگریس کور کمیٹی کے کچھ بھروسہ مند ممبروں سے بات چیت کرنے کے بعد حکمت عملی طے کی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے نمستے پروگرام کا نام لئے بغیر سونیا نے کہا کہ جب ہم گجرات کے ایک پروگرام میں سرکاری خزانے سے سو کروڑ روپئے خرچ کر سکتے ہیں ۔ریل منترالے پی ایم کئیرس فنڈ میں 151کروڑ روپئے دے سکتا ہے تو بیرون ملک میں پھنسے ہندوستانیوں کو بنا کرائے کے واپس لا سکتے ہیں تو پھر پرواسی مزدوروں کو بنا کرایہ ریل سفر کی سہولت کیوں نہیں دی جا سکتی ۔کانگریس کے سکریٹری کیسی وینو گوپال اور پارٹی ترجمان رندیپ سرجیووالا نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے میڈیا سے بات چیت میں ریلوے کا ایک ڈاکیومنٹ جاری کیا جس میں مزدوروں سے کرایہ وصولنے کا ذکر ہے ۔وینو گوپال نے کہا کہ پردیش کانگریس یونٹ سے متعلق ریاستی سرکاروں اور چیف سکریٹریوں کے ساتھ غور خوض کرنے کے بعد مزدوروں کا ریل کرایہ میں جو بھی خرچہ آئیگا اس کی ادائیگی کرے گی ۔راہل گاندھی نے ٹیوٹر پر لکھا ہے ایک طرف تو ریلوے دوسری ریاستوں میں پھنسے مزدوروں سے ٹکٹ کا کرایہ وصول رہا ہے وہیں دوسری طرف وزارت ریل پی ایم کئیرس فنڈ میں 151کروڑ روپئے دے رہا ہے ذرا یہ گتھی سلجھائیں ۔ادھر پرینکا گاندھی نے بھی ٹوئیٹ کیا کہ ہم ویرون ممالک میں پھنسے ہندوستانیوں کو بنا کرایہ لا سکتے ہیں تو ہم مفت ریل سفر کی سہولت کیوں نہیں دے سکتے ؟بھاجپا نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ پرواسی مزدوروں سے ریل کرایہ و خرچ وصولنے کے اپوزیشن کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے شرمک اسپیشل ٹرین کے کرایہ پر 85فیصدی سبسڈی دے رہا ہے اور15فیصدی ادائیگی ریاستی حکومتوں کو کرنی ہے اور کہا کہ زندگی ایک چکر سے چلتی ہے اور مالی خانہ پوری بھی ایک قاعدے سے ہوتی ہے یعنی لیور سے پروڈیکشن اور پروڈکشن نے استعمال اور اس کے استعمال کے لئے لیبر یہ کام صنعت کار کر رہے ہیں پیداوار نہیں ہو سکتی اگر لیور اپنے گھر چلے جائیں بے روزگار ہوئے مزدوروں کے پاس کھانے کونہیں ہے اور کوارنٹائن محض ان کا پیٹ بھرنے کا طریقہ نہیں ہے ۔اسے روزی کیلئے باہر نکلنے سے ڈراتا ہے سرکار کے پاس اتنا اناج ہے اگر جلد ہی ختم نہیں کیا گیاتو ذخیرہ اور رکھ رکھاو ¿ اور تقسیم کا خرچ اناج کی قیمت سے دگنا ہو جائیگا ۔دیکھا جائے تو ریاستی سرکاروں کی ناکامی ہے تو کہ دوسری ریاستوں میں رہ رہے لوگوں کو یقین دلانے میں کامیاب نہیں رہے ۔ہر صورت میں ان کا ساتھ دیا جائیگا ۔ان کو کوئی مشکل نہیں آنے دی جائیگی ۔ویسے ان پرواسی مزدوروں کا واپس جانا بھی کورونا انفکشن کے نظریے سے کم خطرہ بھرا نہیں ہے ۔ہم سیاسی پارٹیوں سے اپیل کریںگے کہ وہ اس معاملے میں سیاست بند کرکے دیش کے مستقبل کے نظریے سے اپنا رول نبھائے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟