پرواسی مزدوروں کی گھر واپسی کا راستہ خطرے بھرا

لاک ڈاو ¿ن کی وجہ سے دیش کے مختلف حصوں میں پھنسے لاکھوں پرواسی مزدوروں ،طلبہ و سیاحوں ،تیرتھ یاتریوں کی با حفاظت واپسی کے لئے جمعہ کے روز یہ پہلی شرمک اسپیشل ٹرین چلی اس کا ناصرف خیر مقدم بلکہ اس پر عمل کرنا چاہیے ۔قریب 40دن کے لاک ڈاو ¿ن کے بعد دیش کو پھر سے جوڑنے والی جو ٹرین تلنگانہ کے لنگم پلی سے جھارکھنڈ کے ہتھیا شہر کے لئے روانہ ہوئی ہے وہ ایک خیر مقدمی قدم ضرور ہے اب کیرل سے اوڑیسہ اور مہاراشٹر سے بہار اترپردیش کے لئے ٹرینوں کا سلسلہ چل پڑے گا تقریباً ان سبھی ریاستوں کی حکومتوں نے جہاںسے مزدور اور صنعتی اور ذراعتی کفیل ریاستوںمیں روزی روٹی کمانے جاتے ہیں اپنے لوگوں کو بس سے لانے میں لاچاری ظاہر کی ہے وہ غلط بھی نہیں ہے ۔مرکز کا مزدروں کو گھر واپس یعنی آبائی ریاست بھیجنے کا فیصلہ تو صحیح تھا لیکن یہ ذمہ داری ریاستی سرکاروں پر تھوپنا ہماری رائے میں نا سمجھی ہے کیرل میں پھنسے ہزاروں مزدور 27سو 35سو کلو میٹر مزدور کیسے جا سکتے ہیں؟بس کون بھیجے گا ؟خیر ایک بار پھر دیر سے صحیح مرکز کی سمجھ میں یہ بات آئی اورپہلی ٹرین تلنگانہ سے جھارکھنڈ کے لئے 1200مزدوروں کو لیکر روانہ ہوئی ۔پرواسی سرمک غریب اور صنعتی طور سے غیر ترقی یافتہ ریاستوں سے (مغرب و جنوبی ہندوستان)ذرعی کفیل پنجاب ،ہریانہ یا پھر خوش حال دہلی جاتے ہیں۔دیش کے مختلف حصوں میں پھنسے کروڑوں پرواسی مزدور ،طالب علم ،تیرتھ یاتریوں کی بحفاظت گھر واپسی کی راہ آسان نہیں ہے ۔مرکزی سرکار کی غیر واضح ہدایات راستی حکومتوں کی زمینی تیاریوں کی کمی اور ٹھوس حکمت عملی نا ہونا اس واپسی میں سب سے بڑی چنوتی ہے ۔اندازے کے مطابق دیش کے مختلف حصوںمیںپھنسے لوگوں کی تعداد تقریباً 100کروڑ سے زیادہ ہے سبھی لوگ پچھلے ایک ڈیڑ مہینے سے گھر واپسی کا انتظار کر رہے ہیں ۔کورونا کی اس وبا میں بغیر منظم حکمت عملی سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گھر واپسی دیش پربھاری نا پڑ جائے ۔بڑا تشویش کا موضوع ہے ۔گھر واپسی کی خوشی میں کہیں ایک بار پھر سے ہجوم کا منظر کا تماشہ نا بن جائے اب تک کہ سرکاروں کے ذریعے کی گئی کوششوں پر پانی پھیر دے اس وقت سب سے بڑی ان کے لئے واپسی کی راہ میںبڑ ی رکاوٹ ٹرانسپورٹ کی مشکل کو لیکر ہے ۔حکومت نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے اب بہت منظم طریقے سے اسپیشل ٹرین چلانے کی حکمت عملی بنائی ہے ایسی ریل صرف ایک جگہ سے چلے گی اور اپنی منزل جاکر رکےگی ۔بیچ میں کہیں نہیں رکنے کی حکمت عملی نہیں ہے ایک بوگی میں 54مسافر ڈیڑھ میٹر کی لگاتار دوری بنا کر سفر کر رہے ہیں امید ہے بیچ میں نا رکنے والی ٹرینو ں میں کافی کھانے پینے کا انتظام ہوگا ۔اس کے علاوہ لوٹ رہے لوگوں کا میڈیکل اور کچھ دن کوارنٹائن میں رکھنے کا انتظام بھی چاک و چوبند ہونا چاہیے ایک ساتھ 12سو یا 16سو لوگوں کو اپنے یہاں لانے کا خطرہ اٹھا رہی ریاستوں کو اپنی طرف سے بھی پوری تیاری و انتظام رکھنے چاہیے ۔خاص طور سے بہار اور اترپردیش کثر آبادی والی جگہوں میں قریب 45لاکھ لوگوں کے لوٹنے کا ارادہ ہے اس لئے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو محفوظ رکھنا اور ان کی باقاعدہ جانچ کرنا ایک اچھا قدم ہے فیصلہ تو اچھا ہے لیکن چنوتیاں بھی کم نہیں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟