رمیش دتا نہیں رہے ،الوداع دوست

دہلی کے فقیری کانگریس کے زمینی نیتا رمیش دتا ہمارے بیچ میں نہیں رہے ۔لمبی بیماری کے چلتے انہیں ایک مرتبہ پھر دہلی کے بترا اسپتا ل می داخل کرایا گیا تھا لیکن اس مرتبہ وہ موت سے ہار گئے اور ہمیشہ اس مرتبہ دتا بچ نا سکے ۔رمیش دتا کو میں پچھلے پچاس برس سے زیادہ عرصے سے جانتا ہوں میں ماڈرن اسکول میں پڑتا تھا اور اکثر بنگالی مارکیٹ جاتا تھا بنگالی مارکیٹ میں بھیم سین کی مٹھائی وغیر ہ کی مارکیٹ پر رمیش دتا بیٹھے رہتے تھے میرا تب سے ان سے تعلق بنا اور آخری وقت تک بنا رہا وہ آئے دن ہمارے دفت میں اپنی خبر چھپوانے آتے رہتے تھے اور مجھ سے ملنے بھی آجاتے تھے ان کا تکیہ کلام ڈیڈی تھا ہرایک کو ڈیڈی پکار کر پاو ¿ں چھونے لگتے تھے یہاں تک کہ اپنے سے بہت چھوٹوں کو بھی ڈیڈی کہہ دیاکرتے تھے ۔اور پاو ¿ں چھوتے تھے میرے دونوں بچوں کی شادیوں میں وہ اپنی نہرو بریگیڈ کو لیکر آئے انہوں نے شادی کی تیاریوں میں گھر کے فرد کی طرح سے کام کیا بہت سال پہلے ہم نے رام لیلاو ¿ں کو سمانت کرنے کے لئے را م لیلا ایوارڈ شروع کئے تھے جس میں ہم دہلی کی سب سے اچھی رام لیلاو ¿ں کو سمانت کرتے تھے پہلے ایوارڈ فنکشن میں ہم نے سورگیہ راجیو گاندھی کو بلایاتھا مجھے آج بھی یاد ہے کہ راجیو چناو ¿ ہار چکے تھے اور انہیں مہمان خصوصی بنانے میں تھوڑی قباحت تھی لیکن میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کا شاندار خیر مقدم ہوگا رمیش دتا اپنے بینڈ باجے کے ساتھ پورے لاو ¿ لشکر کے ساتھ آئی فیکس آل پہونچے اور راجیو جی کا زور دار استقبال کیا ۔بھیڑ اتنی ہوگئی کہ دتا صاحب کو بھیڑ کنٹرول کرنی پڑی ۔ہم ہر سال 80وسرجن یاترا کرتے ہیں اور ہم بھارت اور غیر ملکوں میں پڑی لاوارث استھیوں کا ہندو ریتی رواج سے ہریدوار میں وسرجن کرتے ہیں اور اس موقع پر ہمیشہ ہمارے سواگت کے لئے رمیش دتا اپنی نہرو بریگیڈ کے لاو ¿ لشکر کو لیکر پہونچتے تھے تین چار وار وہ ہمارے ساتھ ہو حریدوار بھی گئے ایک سال جہاں ہم ٹھہرتے تھے وہاں کمرہ نا ملنے کی وجہ سے ہمیں ہوٹل میںتھہرنا پڑا جو کہ دھرم شالہ کے پاس تھا وہاں ہم نے کمرے لئے اور رمیش دتا کوبھی میں نے ہوٹل میں ٹھہرایا ان کے ساتھ ہمارے پنڈت رامیشور دیال بھی کمرے میں ٹھہرے تھے اگلی صبح پنڈت جی نے مجھے بتایا کہ رمیش دتا صبح صبح اٹھ گئے جو کپڑے پہنے تھے انہیں دھویا ان کے پاس کپڑوں دوسرا جوڑا نہیں تھا اس لئے جو پہنے تھے ا س کو دھو کر پہنا ایسے سادہ انسان تھے کہ وہ ہر کانگریسی نیتا کی کسی بھی خوشی کے پروگرام میں اپنی ٹیم کے ساتھ پہونچتے تھے میں انہیں بھلا کیسے بھلا سکتا ہوں یا کانگریس کیسے بھلا سکتی ہے یہ اور بات ہے کہ کانگریس لیڈشپ میں انہیں کبھی سمان نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے جوکوئی بھی ان سے مدد مانگتا تھا اگر وہ کرسکتے تھے تو وہ ضرور کرتے تھے ۔جب وہ 75سال کے ہوئے اور ڈپٹی مئیر بنے تب بھی ان کے برتاو ¿ کبھی تبدیلی نہیں آئی اور منٹو روڈ پر ٹوٹے پھوٹے ایک سرکاری گھر میں فقیروں کی طرح رہتے تھے ان کے ماتا پتا اور بھائی جو رنجیو ہوٹل میں سینئیر مینیجر تھے ان سب کا پہلے ندھن ہو گیاتھا الوداع دوست بھگوان ان کی آتما کوشانتی دے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟