ٹوئٹ پر گرفتاری شخصی آزادی پر ڈاکہ

سپریم کورٹ کے جج نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے متعلق ایک ٹوئٹ کی وجہ سے گرفتار کئے گئے صحافی پرشانت کنوجیا کی ضمانت پر فورارہائی کا حکم دے کر صاف کیا ہے کہ آئین میں بنیادی حقوق کے تحت دی گئی شخصی آزادی کا ریاست خلاف ورزی نہیں کر سکتی ۔کنوجیا کی گرفتاری کے معاملے پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جو ریماکس دیئے ہیں اس سے ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے حکومتیں خاص طور پر ان کی پولس کو کسی بھی مسئلے پر کارروائی کے دوران ان پیمانوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔غور طلب ہے کہ حال میں ایک صحافی پرشانت کنوجیا نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کے بارے میں کچھ تبصرہ کرتی ہوئی ایک خاتون کے ویڈیو کے ساتھ ساتھ ایک ذاتی رائے زنی بھی پوسٹ کر دی تھی اسے بے ہودہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کو بد نام کرنے والا بتاتے ہوئے اس کے خلاف شکایت درج کی گئی تھی اس پر اترپردیش کی پولس نے جس طرح آنا فانا میں کاروائی کرتے ہوئے پرشانت کو گرفتار کیا یہ بتانے کے لئے اپنے آپ میں کافی تھا ۔اس معاملے میں آئینی سسٹم یا قانون کا خیال نہیں رکھا گیا اور دھونس جمانے اور صحافیوں میں ڈر پیدا کرنا زیادہ تھا۔عدالت کے فیصلے سے صاف ہے کہ ان کا یہ حکم صحافی کے ذریعہ ٹوئٹ کی توثیق نہیں ہے بلکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو ۔در اصل کنوجیا کو اترپردیش کی پولس نے دہلی سے ان کے گھر سے جس طرح گرفتار کیاتھا اس سے اس کی نیت پر سوال اُٹھ رہے تھے اس معاملے میں پولس نے ایک ٹی وی چنیل کے دو صحافیوں سمیت کچھ اور لوگوں کو بھی گرفتار کیا۔گرفتاری کے وقت سپریم کورٹ کے ذریعہ طے گائڈ لائنس کی تعمیل نہ کرنے کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے لیکن کنوجیا کو جس الزام میں گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف جس طرح کی دفعات لگائی گئیں وہ حکومتی طاقت کے بے جا استعمال کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں ۔سرکار اور سیاست داں ایک طرف تو آئین کی دہائی دیتے نہیں تھکتے لیکن دوسری طرف شہری آزادی کو خود کی ساکھ سے جوڑتے ہیں ۔اور قانون کی دھجیا ں اُڑا دیتے ہیں ۔کرناٹک پولس نے تو وزیر اعلیٰ کمار سوامی کے بیٹے پہ لوک سبھا چناﺅ میں ہار ہونے سے متعلق ایک خبر شائع کرنے پر ایک کنڑ اخبار کے مدیر کے خلاف با قاعدہ ایک ایف آئی آر درج کر دی تھی ممتا سرکار نے کچھ برس پہلے وزیر اعلیٰ کا کارٹون سوشل میڈیا پر شیر کرنے والے پروفیسر کو گرفتار کر لیا تھا ۔آئینی قواعد اور قانون سے بندھے انتظامیہ کو اس کی ساکھ کا خیال رکھنا چاہیے نیتاﺅں اور سیاستدانوں کوبھی دیش کی جمہوری روایت اور شہری آزادی کے آئینی سسٹم کو دھیان میں رکھتے ہوئے لچیلا رویہ کا ثبوت دینا چاہیے ۔کہنے کی ضرورت نہیں ایک پختہ جمہوریت میں حکومت اعلیٰ کا بے جا استعمال کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے ۔کہتے ہیں سرکاریں چاہے وہ مرکز کی ہو یا ریاستوں کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے نصیحت لیں گی اور قانون کی تعمیل کریں گی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟