سب سے زیادہ ٹریفک ممبئی اور دہلی میں ہوتی ہے

دنیا بھر میں سب سے زیادہ ٹریفک جام سے ممبئی والوں کو دو چار ہونا پڑتا ہے جبکہ دہلی دنیا کا چھوتھا سب سے ٹریفک دباﺅ برداشت کرنے والا شہر ہے یہ انکشاف لوکیشن ٹیکنالوجی کمپنی ٹوم ٹوم کے ٹریفک اینڈیکس 2018میں ہوا ہے ۔دیش کی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں لوگوں کوسڑکوں پر جام لگنے کی صورت میں اپنی منزل تک پہنچنے میں 65فیصدی زیادہ وقت لگتا ہے جبکہ دیش کی راجدھانی دہلی میں 58فیصدی زیادہ وقت لگتا ہے ۔ٹریفک دباﺅ کے معاملے میں کولمبیا کی راجدھانی داگورا 63فیصدی وقت کے ساتھ دوسرے نمبر پر پیرو کی راجدھانی لیما 58فیصدی اور 56فیصدی جام سے روس کی راجدھانی ماسکو 5ویں مقام پر ہے ۔فہرست میں شامل پہلے چاروں شہر ترقی پزیر ممالک میں شامل ہیں ۔پانچواں دیش ترقی یافتہ ہے جی پی ایس سسٹم پر مبنی اسٹڈی میں آٹھ لاکھ سے زیادہ آبادی والے 400شہروں کو شامل کیا گیا تھا ۔ٹوم ٹوم کمپنی ایپل اور اوبر کے لئے نکشے بھی تیار کرتی ہے ۔رپورٹ میں مذید کہا گیا ہے کہ 2018میں پہلے کے مقابلے ممبئی اور دہلی میں ٹریفک تھوڑا کم ہوا ہے ۔2018میں جہاں دہلی میں ٹریفک کا دباﺅ 58فیصدی تھا وہیں 2017میں یہ 52فیصدی ہو اکرتا تھا یعنی اس میں 4فیصدی کمی آئی ہے رپورٹ کے مطابق دہلی میں سب سے کم ٹریفک دباﺅ دو مارچ 2018سے ہو رہا ہے اس دوران یہ محض 6فیصدی ہوا کرتا تھا ۔سب سے خراب ٹریفک 8اگست2018کو تھا اس دوران ٹریفک دباﺅ 83فیصد تک پہنچ گیا تھا ۔ممبئی میں 2017کے مقابلے بہتری دیکھی گئی ۔جو 66فیصدی تھی اب 2018میں یہ 65فیصدی رہ گئی تھی اگست 2018کو 16فیصدی زیادہ تھی ۔رپورٹ سب سے زیادہ ٹریفک کے دوران لوگوں کو کتنا وقت اپنی منزل تک پہنچے میں لگتا ہے اس کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار ہوئی ہے اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ ممبئی میں اوسطا5سو کاریں فی کلو میٹر چلتی ہیں یہ دہلی سے کافی زیادہ ہیں ۔بین الااقوامی سطح پر ٹریفک کا بڑھنا اچھا اور خراب دونوں ہی ہے ۔اچھا یہ ہے کہ اس سے مضبوط معیشت کا اشارہ ملتا ہے اور نقصان یہ ہے کہ زیادہ ٹریفک بڑھانے سے لوگوں کو جام کا شکار ہونا پڑتا ہے اور زیادہ ایندھن کی بربادی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ ہمارے ماحولیات کو بھی بھاری نقصان پہنچتا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟