ایک بار پھر حیوانیت کی حدیں پار ہوئیں

اتر پردیش کے علیگڑھ کے قصبہ ٹپل میں ڈھائی سالہ بچی کے ساتھ ہوئی بربریت نے پورے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔اس واردات میں ایک بار پھر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہمار ا سماج کس طرف جا رہا ہے ؟کیا ہمارے سماج میں حساسیت نام کی چیز ختم ہو گئی ہے ؟بڑھتے جرائم پر لگام کسنے کے معاملے میں ہمارے انتظامیہ مشینری کا کیا رول رہ گیا ہے؟علیگڑھ میں معصوم بچی کے ساتھ حوانیت کی ساری حدیں پار ہو گئیں ۔پولس بھلے ہی بد فعلی کی تصدیق نہ کرئے لیکن جو جرم اس بچی کے ساتھ ہوا وہ کسی بھی لحاظ سے حوانیت سے کم نہیں ہے ۔ڈھائی سال کی ٹوئنکل شرما کو پہلے بسکٹ کا لالچ دے کر پاس بلایا اورپھر اس کے معصوم جسم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ لکھنا ممکن نہیں ہے ۔جس حالت میں لاش ملی وہ سبھی کے لئے باعث شرم ہے ۔جو اس واردات کو انجام دینے والے جرائم پیشہ کے آس پاس سماج کا حصہ بن کر رہتے ہیں تکلیف دہ ہے کہ ایسے درندوں کا بھی ایک سماج ہمارے بیچ موجود ہے۔جو انہیں اس جرم کے بعد بھی اپنے درمیان رہنے دیتا ہے ۔اس پر یہ اور زیادہ افسوس ناک ہے کہ اس بچی اور جرائم پیشہ کا مذہب ایک اشو بن کر سامنے آیا ہے ۔کسی جرم کو مذہب کے ترازو پر تولنا قطعی صحیح نہیں ہے ۔ایسے جرائم پیشہ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ کوئی فرقہ وارانہ اشو نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس نظریہ سے دیکھنا چاہیے ۔بے گناہ بچی کو مارنے کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس کے ماں باپ نے دس ہزار روپئے کا قرض لیا تھا ۔جس میں سے کچھ پیسہ وہ لوٹا نہیں پائے تھے ۔سوال یہ بھی ہے کہ پڑوسی ہونے کے باوجودایک شخص دس ہزار روپئے کی وصولی نہ ہو پانے اور اس وجہ سے ہوئے جھگڑے کے بعد بدلہ لینے کے لئے ایک معصوم بچی کا قتل کرنا اور اس بربریت سے قتل کرنے کی حد تک کیسے چلا گیا؟یہ انتہائی دکھ سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح کا گھنونے جرائم پیشہ میں قانون و سماج کا کوئی خوف نہیں ہے ۔نربھیا کانڈ کو اتنے برس ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک جرائم پیشہ کو پھانسی تک نہیں ہوئی اور مقدمہ عدالتوں میں اپیلوں میں الجھا پڑا ہے ۔اگرایک بھی ملزم کو ایک بار پھانسی ہو جاتی تو اس طرح کے حیوانوں میں تھوڑا سا خوف ہوتا۔کیا کسی بھی معصومیت کی کوئی قیمت ہو سکتی ہے ؟یا پھر جرم کا نشہ اتنا گاڑھا ہو گیا ہے ہے کہ وہ ساری اخلاقیات کو بھول جائیں یہ ایک ننھی بچی ٹیونکل کی کہانی نہیں ہے ۔نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کی مانیں تو ہمارے دیش میں پچھلی ایک دہائی میں بچوں کے خلاف 500فیصد جرائم بڑھ گئے ہیں ۔جبکہ ٹوئنکل جیسے معاملے جب میڈیا میں آجاتے ہیں تب سارا دیش جاگتا ہے پھر چاہے وہ کٹھوہ کانڈ ہو جسے لے کر ورے دیش میں ہنگامہ ہوا ہنگامے کے بعد نا بالغ کے ساتھ بد فعلی کے مجرم کے لئے سزائے موت مقرر کرنے کا قانون بنانے کی پہل کی گئی لوگوں کے بڑھتے غصے سے دباﺅ میں آئی یو پی پولس نے پانچ لاپرواہی برتنے والے پولس والوں کو معطل کر دیا ہے ۔ایس آئی ٹی کو جانچ سونپ دی ہے ۔قتل کے ملزم زاہد اور اسلم کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔لیکن ٹوئینکل کی آتما کو شانتی تب ملے گی جب اس کے قاتلوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟