پھانسی سے اس لئے بچ گئے کٹھوعہ کے درندے

جموں و کشمیر کے کھٹوعہ میں خانہ بدوش بکروال فرقہ کی آٹھ سالہ بچی سے بد فعلی کے بعد قتل معاملے میں پٹھان کوٹ کی اسپیشل عدالت نے چھ ملزمان کو قصوار ٹھہرا کر سزا سنائی ہے ۔جس سے تھوڑی راحت محسوس کی جاسکتی ہے ۔ڈیڑھ برس پہلے 10جنور 2018کو اس بچی کو اغوا کر اس کے ساتھ بربریت کی گئی ۔جس کا مذہب سماج میں تصور نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن اس جرم کو جس طرح سے انجام دیا گیا وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا ۔یہ بچی جانوروں کو چرانے کے لئے نکلی تھی تبھی اسے اغوا کیا گیا اس کے بعد اس کو ایک مندر میں قید رکھا گیا اور نشے کی دوائیاں دی جاتی رہیں اسی حالت میں اس سے اجتماعی آبرو ریزی ہوتی رہی ۔شرم کی بات یہ ہے کہ اس گھناﺅنے جرم کو انجام دینے والوں میں مندر کا پجاری اس کا رشتہ دار ایک ایس پی او بھی شامل تھا ۔چار پانچ دن بعد بچی کو قتل کر اس کی لاش جنگل میں پھینک دی گئی تھی ۔ایسے واقعہ مشکل سے سنے میں آتے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ ان گھنونے جرم میں کچھ پولس ملازم بھی شامل تھے ۔اس واردات کے اجاگر ہونے کے اس کو فرقہ وارانہ اور سیاسی رنگ دینے کی نہ صر ف کوشش ہوئی بلکہ ملزمان کی قیصدہ خوانی کرنے کے سبب ریاست کی اس وقت کی پی ڈی پی بھاجپا حکومت کے دو وزیروں کو استعفی تک دینا پڑا تھا ۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس معاملے کی سماعت پڑوسی ریاست کے ضلع پٹھان کوٹ میں منتقل کرنی پڑی تھی ۔ورنہ جس بے حد غریب طبقہ سے یہ خانہ بدوش خاندان آتا ہے اس کے لئے انصاف کی درخواست لگا پانا شاید ممکن نہیں ہوتا۔یہ واردات ہمارے دیش و مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں و سماج کے سب طبقات کے لئے شرم ناک تھی ۔اب فیصلہ آگیا ہے اور قصورواروں کو سز ا ہو گئی ہے لیکن اس واردات میں جو کچھ ہوا اور جنہوں نے اسے انجام دیا اس سے صاف ہے کہ یہ لوگ صرف جرائم پیشہ نہیں بلکہ حیوان تھے ۔مندر کی دیکھ بھال کرنے والا ایسا شخص نفرت آمیز اور گھناﺅنے جرم کو انجام دے گا کوئی اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اتنا ہی نہیں بلکہ اس پجاری نے اپنے ایک رشتہ دار لڑکے کوبھی فون کر کے دوسرے شہر سے بلا لیا تھا ۔اسپیشل پولس آفیسر جسے مقامی لوگوں کی مدد کے لئے مقرر کیا گیا تھا وہ ایک ایسے کسی کو اغوا اور آبرو ریزی کی سازش تیار کرئے گا اور گناہ کرئے گا اور اس کے بعد دوسرے پولس والے اس کے ثبوت مٹائیں گے یہ پولس مشینری کا چہرہ دکھانے کے لئے کافی ہے ۔حال ہی میں علیگڑھ کے ٹپل قصبہ میں بچی کے قتل اور بھوپال میں دس سالہ بچی سے آبروریزی کے بعد قتل جیسے واقعات نے پورے دیش کو شرم سار کر دیا ہے ۔اجین اور جبل پور میں بھی دو معصوم بچیوں کے ساتھ آبرو ریزی ہوئی یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ ہمارے سماج میںکیسی حرکتیں کی جا رہی ہیں ۔ہماری حکومتی مشینری کہیں نہ کہیں جرائم کو نظر انداز کرتی ہے ۔ہمارا ضمیر اس قدر مٹ گیا ہے کہ ایک متوفی اور قاتل کی سماجی پہچان دیکھ کر طے کرتے ہیں کہ کس کے ساتھ کھڑا ہو کر ساتھ دینا چاہیے یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ جرائم نے خوف نام کی کوئی چیز نہیں رہی ہے ۔اس لئے ایسے جرائم پر شکنجہ کسنے کے لئے اطفال جنسی جرائم کنٹرول قانون کابھی خوف نہیں ہے۔جس میں موت تک کی سہولت ہے ۔ایسا لگتا ہے سخت قانون بھی بچیوں اور عورتوں کو ازیت اور ان کے خلاف ہونے والے جرائم کا توڑ نہیں کر پا رہے ہیں ۔اتنا بے خوف جرم کرنے والے مجرم پھانسی سے اس لئے بچ گئے کیونکہ یہ سزا آئی پی سی سے نہیں بلکہ جموں کشمیر میں رنویر پینل کوڈ کے تحت سنائی گئی اس میں بارہ سال سے چھوٹی بچیوں سے بد فعلی پر پھانسی کی سہولت تھی 24اپریل 2018کو کھٹوعہ کی واردات کو بعد میں جوڑا گیا یہ واردات دس جنوری 2018کی ہے ۔اور نے قانونی تقاضوں کے تحت عدالت سزا نہیں دے سکتی تھی اس لئے قصور وار پھانسی سے بچ گئے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟