بکھرتا جارہا ہے کیجریوال کا کنبہ

آندولن کی آنچ سی نکلی عام آدمی پارٹی کا سورج اب آہستہ آہستہ مدھم ہوتا جارہا ہے۔ بیشک شری اروند کیجریوال نے پارٹی تو بنا لی لیکن وہ اسے سنبھال نہیں سکے۔ شاید ہو یہ بھول گئے کہ پارٹی کی بنیاد آئیڈیالوجی ہوتی ہے موقعہ پرستی نہیں۔ جنہوں نے انا ہزاری کی تحریک سے پیدا پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا وہ ساتھی باری باری کیجریوال کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ انا آندولن سے پیدا عام آدمی پارٹی کی تشکیل سیاست میں تبدیلی کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ تشکیل کے وقت اس نے 100 ناموں کی فہرست جاری کر انہیں کرپٹ قرار دیا تھا۔ جنتا کو بھی لگا کہ جیسے یہ پارٹی دیش میں انقلاب لائے گی۔ لیکن جب اسی پارٹی نے انقلاب کا آغاز کرنے کے لئے فوجی بھرتی کئے تو اس میں وہ بھی آگئے جنہیں عاپ نے کرپٹ قرار دیا تھا۔ ایسے میں پارٹی کے اندر سنگین حکمت عملی سازوں کی کمی کھلنا فطری ہی ہے۔ حال ہی میں عاپ کے پی اے سی ممبر اور قومی ترجمان آشوتوش اور بدھوار کو دہلی ڈائیلاگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین آشیش کیتھان نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ حالانکہ ابھی پارٹی نے ان دونوں کا استعفیٰ منظور نہیں کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ پارٹی چھوڑنے والے نیتاؤں کی فہرست لمبی ہوتی جارہی ہے۔ پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو، پروفیسر آنند کمار و پروفیسر اجت جھا کو کیجریوال نے پارٹی سے نکال کر اندرونی رسہ کشی کو جنم دیا۔ اس کے بعد دہلی میں جس شخص کے محلہ سبھا کنسیپٹ کی نقل پارٹی کرتی رہی ،پارٹی کے پٹ پڑ گنج سے ممبر اسمبلی رہ چکے ونود کمار بنی نے استعفیٰ دے کر کھلبلی مچادی۔ بنی و غازی آباد سے لوک سبھا چناؤ لڑ چکی پی اے سی کی ممبر شازیہ علمی نے بھاجپا میں شامل ہوکر پارٹی کو جھٹکا دے دیا۔پھر وزیر آب سے ہٹائے گئے کپل مشرا نے کیجریوال کے خلاف مورچہ کھول دیا۔ کیجریوال نے عاپ کو آگے بڑھانے کے لئے کانگریس اور بھاجپا کے سابق لیڈروں کو ٹکٹ دیا۔ سیاسی واقف کاروں کے مطابق اقتدار میں قابض ہوتے ہوئے پارٹی لیڈر شپ سے لیکر نیچے تک سبھی کے نظریات بدلنے لگے۔ پارٹی لیڈر شپ پر راجیہ سبھا چناؤ کے لئے پرانے ساتھیوں پر دھن کبیروں کو ترجیح دینے کے بھی الزام لگے۔ احتجاج میں جس نے بھی آواز اٹھائی یا یاد کرانے کی کوشش کی کہ پارٹی اپنی آئیڈیا لوجی کو بھول گئی ہے اور دھن کبیروں کو ترجیح دے رہی ہے تو انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا یا مجبور کیا گیا وہ خود پارٹی کو چھوڑدیں۔ بھاجپا کے پردیش پردھان منوج تیواری نے آشیش کھتان کے استعفے پر چٹکی لیتے ہوئے کیجریوال کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان نیتاؤں کے استعفے یہ بتاتے ہیں کہ کیجریوال کا برتاؤ تانا شاہی والا ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیجریوال کا کرشمہ دہلی کے ساتھ ہی اب پارٹی میں بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے پارٹی کے مستقبل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سال 2020 تک یعنی اگلا اسمبلی چناؤ آتے آتے یہ پارٹی تاریخ بن جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟