امریکی میں 343 اخباروں نے ٹرمپ کے خلاف ایک ساتھ لکھا اداریہ

پچھلے کچھ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی پرنٹ میڈیا سے خاص کر ٹھنی ہوئی ہے۔ صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امریکی اخبار دیش دشمن ہیں۔ پچھلی جمعرات کو پرنٹ میڈیا نے ٹرمپ کو سخت جواب دیتے ہوئے 343 اخباروں نے ان کے خلاف ایک ساتھ اداریہ لکھے ہیں۔ صدر ٹرمپ اکثر میڈیا کے خلاف جارحانہ رہتے ہیں اور میڈیا کے لئے فیک میڈیا لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ٹرمپ نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے میڈیا کو جنتا کا دشمن تک کہہ دیا تھا۔ ٹرمپ کے بیانوں کا ہی اثر تھا کہ ایک حالیہ سروے میں امریکہ کے 51 فیصد لوگوں نے میڈیا کو جنتا کا دشمن کہہ دیا تھا۔ اس پر امریکہ کے میڈیا نے اعتراض جتایا تھا اور صدر کے نفرت بھرے بیانات کے خلاف ایک ساتھ اداریہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پوری کمپین کی شروعات انگریزی اخبار ’گلوب ‘ نے کی ۔شروع میں 100 اخباروں ان کے ساتھ آئے اور اداریہ لکھنے کے لئے 16 اگست کی تاریخ طے کی گئی لیکن 16 اگست کی تاریخ آتے آتے اس مہم میں 343 اخبار جڑ گئے۔ یہ اخباروں نے مل کر یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ کی پوری 50 ریاستوں کو کور کرتے ہیں۔ نیویارک ٹائمس نے اپنے اداریہ میں ایک بار بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا نام تک نہیں لیا۔ ان کے لئے یا تو مسٹر پریسڈنٹ لکھا گیا یا وہ کہہ کر مخاطب کیا۔ اخبار نے لکھا ہے وائٹ ہاؤس کی اہمیت اس سے کم تو کبھی نہیں ہوئی وہ (ٹرمپ) جمہوریت کی رگوں میں بہنے والے خون کے لئے بھی خطرناک ہے۔ دی گارجین اخبار نے لکھا ہم امریکہ کی جنتا کے دشمن نہیں ہیں، ہم تو ان کی بہتری چاہتے ہیں لیکن خود کی بہتری چاہنے کے لئے امریکیوں کو اب آواز اٹھانی ہوگی۔ ہماری جو بات ٹرمپ کو جنگ لگتی ہے ہمارے لئے وہ روز مرہ کا کام ہے۔ نیویارک پوسٹ نے لکھا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ متفق ہیں یا نہیں؟ ہم نا اتفاقی ظاہر کرنے والے کون ہیں؟ ہمارے پاس نا اتفاقی کا حق ہی نہیں بچا ہے۔ دیش میں غیر متفق ہونے والے یا سچ کہنے والے ہر شخص کو جھوٹا ثابت کیا جارہا ہے۔ ہمیں کسی کا ووٹ نہیں چاہئے، ہم کیوں جھوٹ بولیں گے؟ دراصل ٹرمپ نے کچھ اخباروں کو ’فیک نیوز‘ بتایا تھا اس کے بعد کچھ صحافیوں سے بدسلوکی کے واقعات بھی ہوئے جس سے میڈیا میں یہ تصور قائم ہوا کہ صحافیوں سے غلط برتاؤ کرنے والوں کوٹرمپ کی شے مل رہی ہے۔ بہرحال امریکہ یا کسی دوسرے دیش میں انتظامیہ اور میڈیا میں یہ بے اعتمادی جمہوریت کو کمزور کرتی ہیں۔ امریکہ نے فری پول اور فری فریڈم کا اظہارساری دنیا سے زیادہ ہے۔وہاں پریس کی جو حیثیت ہے اب بھی کئی ملکوں میں میڈیا کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ پریس کی ٹرمپ کو کچھ چیزوں سے ناراضگی ہوسکتی ہے لیکن پریس کی آزادی کی کسی طرح کی حق تلفی ہو اس سے دونوں کو نقصان ہوگا۔ امید کی جانی چاہئے صدر اور میڈیا کے درمیان جو بھی غلط فہمی ہے وہ جلد دور ہوجائے گی اور رشتوں میں جو کڑواہٹ آئی ہے وہ ختم ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟