ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش

کلیان سنگھ ، کیسری ناتھ ترپاٹھی اور ستیہ پال ملک کے بعد اترپردیش سے بھاجپا کے دیگر لیڈروں لال جی ٹنڈن اور بے بی رانی موریہ کو گورنر بنا کر مرکز میں بھاجپا سرکار نے قومی سیاست میں اترپردیش کی سیاسی اہمیت کو قبول کرلیا ہے۔ یہ تقرریاں لوک سبھا چناؤ کے پیش نظر اترپردیش کی چنوتیوں سے نمٹنے کی حکمت عملی ہمیں نظر آرہی ہے۔ موریہ کو اتراکھنڈ ، ٹنڈن کو بہار کا گورنر مقرر کرتے ہوئے بہار کے گورنر کو جموں و کشمیر بھیج کر اہم اشارہ دئے ہیں۔ جموں و کشمیر میں ستیہ پال ملک کو بھیجنا بھاجپا نے پہلی بار وہاں پوری طرح سے سیاسی شخصیت کو گورنر بنایا ہے۔ ستیہ پال ملک کی شکل میں جموں و کشمیر کو 51 سال بعد ایسا گورنر ملا ہے جو فوجی یا انتظامی پس منظر کا نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں دیکھیں تو اسے آنے والے دور میں اہم تبدیلیوں کا اشارہ مانا جاسکتا ہے۔ 1965-67 تک ڈاکٹر کرن سنگھ کی میعاد کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب کسی سیاستداں کو جموں و کشمیر کے گورنر کا عہدہ سونپا گیا ہے۔بیشک ایک افسر شاہ پوری حالات کو قانون و سسٹم کے آئینے سے زیادہ دیکھتا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یہ ایک اہم ترین پہلو ہے لیکن اس کے ساتھ سیاسی پس منظر میں بھی قدم اٹھانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اس وقت جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ ہے۔ اس معنی میں جموں و کشمیر کے پورے حالات کا دارومدار مرکزی حکومت پر آجاتا ہے اور بھاجپا لیڈر شپ کو امید ہے کہ ستیہ پال ملک اس کے نمائندے کی شکل میں مرکز کی پالیسیوں پر عمل کریں گے۔ جموں و کشمیر میں پچھلے قریب پانچ دہائی سے افسر شاہوں فوجی پس منظر سے آنے والے افراد کو گورنر مقرر کرنے کی روایت کو توڑ کر مرکز نے ایک صحیح فیصلہ دیحا ہے۔ اس نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اس شورش زدہ ریاست میں ایک سیاستداں کو گورنر بنایا جائے گا۔ستیہ پال ملک کے حق میں دو باتیں کام آئی ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ آر ایس ایس سے جڑے نہیں ہیں لہٰذا بے حد حساس ریاست میں وہ نظریاتی پہلوؤں کو دیکھ کر ہی کام کرسکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ سابق وزیر اعلی و مرحوم وزیر اعلی مفتی سعید کے دوست رہے ہیں۔ ستیہ پال ملک وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹیوں میں عہدیدار بھی رہ چکے ہیں۔ حالانکہ اصلاً وہ بھاجپائی نہیں ہیں جن کی جموں و کشمیر کے بارے میں پارٹی سے الگ آئیڈیا لوجی ہے۔ملک کی تقرری سے اتنا تو صاف لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ایک غیر بھاجپائی آئیڈیا لوجی سے جموں و کشمیر میں ابھی کوئی بڑی پہل نہیں کرنے جارہے ہیں۔ ملک کے سامنے ریاست میں تشدد پر قابو پانا ، بلدیاتی اداروں کا چناؤ کرانے اور آگے چل کر اسمبلی چناؤ کرانے کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے۔ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں کہنا مشکل ہے۔ مودی نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟