عمران خان کے سامنے متعدد چیلنج

عمران خان کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے کے بعد دنیا بھر کی نظریں ان کی طرف لگی ہوئی ہیں اور یہ دیکھنے کے لئے بے چین ہیں کہ سابق کرکٹر سیاست کی پچ پرکس طرح کا کردار نبھاتے ہیں؟ نے پاکستان کی نئی صبح جب عمران خان اس دیش کے نئے وزیر اعظم عہدہ کا حلف لے رہے تھے پاکستانی عوام بھی ان کو دیکھ رہی تھی۔ آنے والے دنوں کی طرف نئے پاکستان کے حمایتیوں میں بڑا جوش ہے لیکن عمران خان کے درجنوں نکتہ چینی کرنے والے بھی نظریں لگائے بیٹھے ہیں پاکستان کو بدلنے کا نعرہ دینے والے اب دیش میں کسے تبدیلی لے کر آتے ہیں۔ چناؤ مہم کے درمیان الزام تراشیاں ایک دوسرے پر خوب کی جاتی ہیں اور اس تلخی کی ایک دلیل تو ہمیشہ یہی دی جارہی ہے کہ جلسے کا ماحول اور ہوتا ہے سرکار کے ایوانوں کا ماحول اور ہوتا ہے۔ پاکستان جس طرح دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے اس وجہ سے پوری دنیا کی زیادہ دلچسپی اس کی پالیسیوں میں رہتی ہے۔ چناؤ میں سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں سامنے آنے کے بعد عمران خان نے اپنی لمبی تقریروں میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عزم تک ظاہر نہیں کیا تھااس وجہ سے بھی دلچسپی بنی ہوئی ہے۔ آخر دہشت گردی کے معاملہ میں ان کی حکومت کا موقف کیا ہوتا ہے؟ سابقہ حکومتیں وزیرستان سمیت سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی چلا رہی تھیں۔ بہت سے دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا ہے۔ عمران اسے جاری رکھتے ہیں یا نہیں یا بند کرتے ہیں یہ دیکھنا ہوگا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سفارتی ذمہ داری کی تعمیل کرتے ہوئے نئے وزیر اعظم عمران خان کو خیر سگالی پر مبنی خط کیا لکھا دونوں دیشوں کے سیاسی حلقوں میں طوفان آگیا۔ مودی کے خط کا مضمون اتنا بھر تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تعمیرانا اور پائیدار بات چیت کے لئے عہد بند ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دسمبر 2015 میں دونوں ملکوں کے درمیان لٹکی پڑی بامقصد بات چیت کو پھر سے بحال کیا جائے جو جنوری 2016 میں پٹھانکوٹ ایئر بیس پر آتنکی حملہ کے بعد سے ملتوی ہے۔ لیکن پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مودی کے اس خط کی تشریح ایسے کی کہ مانوں انہوں نے عمران خان کو بات چیت کے لئے دعوت دی ہو۔ یہ کہنا مشکل ہے انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا یا ان کی سفارتی ناسمجھی تھی لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کے اس سفارتی داؤ سے بھارت کی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو مودی سرکار کی پاکستان پالیسی کو گھیرنے کا موقعہ مل گیا حالانکہ بی جے پی نے نوجوت سنگھ سدھو معاملہ سے حساب کتاب برابر کرلیا ہے۔ بدلے ہوئے ماحول کی ایک جھلک پوری دنیا 20 جولائی کو دیکھ چکی ہے جب ایک تقریرعمران خان نے اپنی جیت کا اعلان کیا تھا۔ وہیں سفید کرتا شلوار، گلے میں وہی پاکستان تحریک انصاف کے رنگوں کا مفلر اور وہی کمرہ، اگر کچھ بدلا ہوا تھا تو عمران خان کے الفاظ اور ان کا لہجہ۔ تقریر سے تقریباً سبھی پاکستانی طبقات میں انہیں اچھی نظر سے دیکھا گیا۔ ان کے حمایتی اور اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ اس دن وہ عمران نظر آئے جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ اب تو سب کی نظر پاکستان تحریک انصاف کے پہلے 100 دنوں کی میعاد کے پلان پر ہے جس میں پی ٹی آئی نے پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کو بدلنے اور انجمن کو مضبوط کرنے اور سماجی خدمات اور حکمرانی کو بہتر بنانے، ذراعت سیکٹر میں خامیوں کو دور کرنا، بلوچستان میں سکیورٹی نظام کو بہتر بنانا، ساؤتھ پنجاب کو الگ ریاست بنانے اور عام آدمی کی زندگی بہتر کرنے سمیت ایسے وعدے کئے ہیں جو پورے ہوں گے تو پاکستان جنت نہ صحیح جنت جیسا تو بن ہی سکتا ہے۔ عمران خان کو وزیر اعظم بننے پر ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کی قیاد ت میں دونوں ملکوں کے رشتے بہتر ہوں گے اور ایک نیا باب لکھیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟