پاک فوج چیف کو گلے لگا کر برے پھنسے سدھو

ٹونگ دھارایل او سی پر سنیچر کی صبح ایک طرف پاکستانی فوج ہندوستانی فوجیوں پر گولیاں برسا رہی تھی وہیں تقریباً اسی دوران پنجاب حکومت کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کی حلف برداری میں پاک فوج کے چیف قمر جاوید باجوا سے گلے مل کر ان کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔ سدھو کی ہر طرف کرکری ہورہی ہے۔ حلف برداری تقریب میں شرکت کرنے پاک صدر کی رہائش گاہ پہنچے سدھو کو دیکھ کرباجوا ان کے پاس آئے اور گلے لگا کر خیر مقدم کیا۔اس کے بعد باجوا نے دوبارہ سدھو کو گلے لگا کر پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے الوداعی لی۔ سدھو کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے دیہانت پر قومی سوگ اعلان ہونے کے باوجود پاکستان جانے پر پہلے ہی ان کی تنقید ہورہی تھی نارتھ کشمیر کے ٹونگ دھارمیں سنیچر کی صبح11 بجے پاکستانی فوج نے ہندوستانی چوکی پر جم کر گولہ باری کی۔ حالانکہ ہندوستانی فوج نے بھی اسے منہ توڑ جواب دیا۔ بھاجپا ترجمان سمبت پاترا نے اس تقریب میں سدھو کے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے صدر مسعود خان اور پاک فوج کے چیف باجوا سے گلے ملنے کی تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کیا سدھو نے اپنے پارٹی صدر راہل گاندھی سے اس کی اجازت لی تھی؟ کرکٹر سے وزیر اعظم کے عہدہ تک پہنچے عمران خان کی حلف برداری میں سدھو کے ساتھ کپل دیواور سنیل گواسکر کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن صرف سدھو ہی گئے کیونکہ سندھو اس وقت پنجاب حکومت میں وزیر بھی ہیں۔ ایسے میں ان کے مسعود خان اور جنرل باجو سے گلے ملنے پر اعتراض جتایا جارہا ہے۔ پاترا کا کہنا تھا کہ جنرل باجو ا کو گلے لگاتے وقت کیا سدھو کو یہ یاد نہیں رہا کہ کیسے پاکستانی فوج بے وجہ گولہ باری کر ہندوستانی جوانوں اور بے قصور لوگوں کی جان لیتی ہے؟ حلف برداری تقریب میں جب سدھو کو مقبوضہ کشمیر کے صدر کے بغل میں بیٹھنے کے لئے سیٹ دی گئی تو انہوں نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ اٹل جی کے دیہانت سے جہاں پورا دیش قومی سوگ میں ہے وہیں سدھو عمران خان کی حلف برداری میں جشن منا رہے تھے، کیا یہ شرمناک نہیں ہے؟ باجوا سے گلے ملنے پر نوجوت سنگھ سدھو نے صفائی دی ہے کہ میں بطور سیاستداں نہیں دوست کی حیثیت سے پاکستان آیا ہوں۔ جنرل صاحب نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ وہ امن چاہتے ہیں۔ خان صاحب (عمران) نے کہا کہ آپ امن کے لئے ایک قدم چلو تو میں دو قدم چلوں گا۔ کانگریس کے ترجمان راشد علوی کا کہنا تھا اگر سدھو مجھ سے پوچھتے تو میں پاکستان جانے سے اسی وقت منع کردیتا۔ دوستی دیش سے بڑی نہیں ہے۔ سرحد پار ہمارے جوان مارے جارہے ہیں ایسے میں سدھو کا پاکستانی فوج کے سربراہ سے گلے ملنا غلط ہے۔ حکومت کو بھی انہیں پاکستان جانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے حلف برداری کے بعد سنیچر کو اپنی 20 نفری کیبنٹ کا اعلان کردیا جس میں تین عورتیں بھی شامل ہیں۔اسلام آباد کی ماہر تعلیم ڈاکٹر شری مظاہری بھی ہیں جنہوں نے کارگل ختم ہونے کے تین مہینے بعد اکتوبر1999 میں ایک مضمون میں پاکستان سرکار کو بھارت پر نیوکلیائی حملہ کرنے کی صلاح دی تھی۔ انہیں خارجہ یا ڈیفنس وزارت دئے جانے کی خبر تھی لیکن انہیں انسانی حقوق وزارت دی گئی ہے۔ پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کی سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مظاہری عمران خان کی پارٹی کی خارجہ پالیسی کی انچارج بھی رہی ہیں۔کولمبیا یونیورسٹی سے خارجہ پالیسی ، فوجی اسٹڈی پر بھی پی ایچ ڈی کرچکی ہیں۔ مظاہری ’دی نیشن‘ اخبار کی مدیر بھی رہ چکی ہیں۔ ایک امریکی صحافی کو سی آئی اے جاسوس بتانے کے لئے انہیں تنقید کا شکار ہونا پڑا تھا۔ خیر سدھو جی نے ایک تنازع کھڑا کردیا ، ایک ایسا تنازع جو ان کے گلے ملنے سے پیدا ہوا ہے۔ ان کے اس تنازع سے ان کی پارٹی کانگریس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جارہا ہے۔ جبکہ مجھے لگتا ہے کہ اس کا کانگریس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سدھو کا پاکستان جانا ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ رہی بات گلے ملنے کی تو اس سے بچا جاسکتا تھا۔ پی او کے کے صدر کے ساتھ والی سیٹ پر جان بوجھ کر انہیں بٹھایا گیا تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا میں جنرل کو گلے لگانے کی مخالفت کرتا ہوں۔ روز ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں ایسے وقت پر وہ پاکستانی فوج کے چیف کو گلے لگاتے ہیں یہ غلط ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟