کمار سوامی کی حلف برداری میں اپوزیشن اتحاد کا پیغام

کرناٹک میں ایچ ڈی کمار سوامی کی حلف برداری تقریب میں اپوزیشن اتحاد دکھانے کا ایک موقعہ مل گیا ہے۔ بنگلورو میں بدھوار کی شام ہوئی حلف برداری میں سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے نیتا شامل ہوئے ۔ کانگریس صدر راہل گاندھی ، یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی، بسپا صدر مایاوتی قابل ذکر ہیں۔ دراصل کرناٹک کی کشتی میں بھاجپا کوملی مات معاملہ سے ترنمول کانگریس کی چیف ممتا بنرجی ، مایاوتی، اکھلیش یادو، چندرابابو نائیڈو اور تلنگانہ کے نیتاؤں کی بانچھیں کھلنے لگی ہیں۔ کرناٹک کے سیاسی واقعات سے ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ بھاجپا کے سامنے متحد ہوکر چناؤ لڑنے سے ہی اقتدار حاصل ہوگا ساتھ ہی این ڈی اے کے کچھ اتحادی پارٹی بھی تیسرے مورچے میں شامل ہوسکتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شری کمار سوامی کی حلف برداری تقریب کو لوک سبھا کے نظریئے سے دیکھا جائے تو تقریب میں جن پارٹیوں کودعوت دی گئی ہے وہ لوک سبھا کی 270 سے زیادہ سیٹوں پر مضبوط دعویداری رکھتی ہیں۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے چھتیس گڑھ کے دورہ پر مدیروں سے بات چیت میں پوچھے جانے پر کہ کیا وہ 2019 میں مودی کے خلاف جیت حاصل کر پائیں گے؟ راہل گاندھی نے جواب دیا اپوزیشن اگر متحد ہوجائے گی تو وہ دن یقینی طور سے آئے گا۔ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کیا وہ کریں گے یہ پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کانگریس سامنے والی پارٹی کی آئیڈیا لوجی کا احترام کرتی ہے جبکہ بھاجپا اپنی آئیڈیالوجی کوماننے کو مجبور کرتی ہے۔2019 میں اگر بھاجپا بنام اپوزیشن ون ٹو ون مقابلہ ہوتا ہے تو بھاجپا کو ہرایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف کرناٹک میں جس طرح کانگریس نے جے ڈی ایس جیسی چھوٹی علاقائی پارٹیوں کا جونیئر پارٹر بننا قبول کیا ہے اس سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کو 2019 لوک سبھا چناؤ میں علاقائی پارٹیوں کے پچھلپنگو کا کردار نبھانا پڑسکتا ہے۔ کانگریس نے بہت بھاری بھول کی کرناٹک میں نتیجے بتاتے ہیں کہ اگر کانگریس میں جے ڈی ایس سے چناؤ سے پہلے اتحاد یعنی پری پول الائنس کیا ہوتا تو نہ تو گورنر یدیرپا کو پہلے بلاتے اور نہ ہی اتنا ہنگامہ ہوتا۔ اگر پری پول اتحاد ہوتا تو کرناٹک کی 224 میں سے157 سیٹوں پر اتحاد کی جیت ہوتی یعنی بھاجپا کو محض 65 سیٹوں پر سمٹنا پڑتا۔ انہی نتیجوں کو اگر لوک سبھا کی سطح پر دیکھا جائے، بھاجپا کرناٹک کی 28 سیٹوں میں سے 10 سیٹوں پر ہی جیت پائے گی۔ ممتا بنرجی، مایاوتی نے کانگریس کو جے ڈی ایس کے ساتھ چناؤ سے پہلے اتحاد کی صلاح دی تھی تب سدا رمیا کوکنڑ اور لنگائیت کارڈ کی بدولت جیتنے کا بھروسہ دیا تھا۔ کرناٹک کے نتیجوں نے سدا رمیا کا غرور تو توڑا ساتھ ہی جیتی ہوئی بازی بھی ہاتھ سے نکال دی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟