جموں وکشمیر کے سرحدی گاؤں میں چھایا سناٹا،ہزاروں زندگیاں داؤں پر

سنسان گلیاں،خاموشی اس قدر کے تنکا بھی گرے تو آواز سنائی دے۔ جموں و کشمیر کے سرحدی گاؤں میں ماحول اب بدسے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ 6 کلو میٹر کی دوری پر واقع دیہاتی محفوظ نہیں ہیں ایسے میں اب ہزاروں کنبوں کی زندگی داؤ پر لگی ہے۔ جموں و کشمیر سے ہمارے نامہ نگار انل ساکشی کی یہ رپورٹ چونکانے والی رپورٹ پیش ہے۔ آج ہی جموں و کشمیر کی سرحدی دیہات میں پاکستانی فوج نے زبردست بمباری کرکے جنگ جیسے حالات بنائے ہوئے ہیں جو تباہی اس کے چلتے پانچ اور شہریوں کی موت ہوچکی ہے۔ گولہ باری سے 70 سے زائد لوگ زخمی ہیں،400 سے زیادہ جانور مارے جاچکے ہیں۔ 250 گھروں کو مالی نقصان پہنچا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور یہ سب سیز فائر کے چلتے ہورہا ہے۔ پاک فوج نے جموں خط کی بین الاقوامی سرحد کے ساتھ لگی محاذی چوکیوں اور دیہاتوں کو نشانہ بنا کر مورٹار کے گولے داغے۔ اس دوران گولہ باری میں 70 سالہ ایک عورت سمیت آدھا درجن سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے۔ سینکڑوں دیہاتیوں نے اپنا گھر چھوڑ کر یا تو دور دراز علاقوں میں اپنے رشتے داروں کے یہاں یا سرکار کے ذریعے بنائے گئے راحت کیمپوں میں پناہ لی ہے۔ اس پورے علاقہ میں تعلیمی ادارے اب بھی بند ہیں۔ بین الاقوامی سرحد پر 80 کلو میٹر اور 120 ملی میٹر مورٹار گرنے سے قریب ایک درجن دیہات متاثر ہوئے ہیں۔ حکام نے کہا گولہ باری اور مورٹار کے گولہ گرنے کا یہ سلسلہ پوری رات جاری رہتا ہے اور اکھنور سے لیکر سانبا تک سرحد سے لگے سبھی سیکٹر اس کی زد میں ہیں۔ بی ایس ایف کی جوابی کارروائی میں کچھ پاکستانی رینجروں کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے اور ان کے کئی بنکر تباہ ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ذریعے پچھلے کچھ دنوں سے سرحدپر گولہ باری تیز ہوگئی ہے۔ جموں کے پولیس ڈائریکٹرجنرل ایس ڈی سنگھ جگوال نے کہا کہ پولیس ٹیموں کی تعیناتی کی گئی ہے جو لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر جانے میں مدد کررہی ہیں۔ جموں کے منڈل کمشنر ہیمنت کمار شرما نے باتیا سرحد سے لگنے والے علاقوں میں راحت کیمپ قائم کئے گئے ہیں خاص طور پر آر ایس پورہ اورمڈنیا سیکٹر میں۔ پاک رینجرس کے ذریعے جموں ، سانبا اور کٹھوا ضلعوں میں فوج اور غیر فوجی ٹھکانوں پر مسلسل جاری گولہ باری اور بمباری کے سبب سرحدی گاؤں سے 50 ہزار سے زیادہ لوگ کو اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر ہجرت کرنے کو مجبور ہونا پڑا ہے۔ پولیس نے بتایا کچھ لوگوں نے انتظامیہ کے ذریعے بنائے گئے عارضی کیمپوں میں پناہ لی ہے جبکہ زیادہ تر اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے گھروں میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوئے ہیں حالانکہ مویشیوں اور گھروں کی رکھوالی کے لئے ہر گھر میں ایک مرد ممبر کو چھوڑدیا گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟