قانون بدلنے سے کیا ریپ رک جائیں گے

جس دن صدر نے بچیوں سے آبروریزی پر پھانسی سے متعلق آرڈیننس پر دستخط کئے اسی دن دیش کے الگ الگ حصوں میں چار نابالغوں کے ساتھ درندگی کی اطلاعات ملیں۔ اس میں دو معصوم بچیاں تھیں۔ دیش میں یومیہ 25 بچیوں کے ساتھ بدفعلی ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال2016 میں اطفال جنسی اذیت کے قریب 1 لاکھ سے زیادہ معاملات عدالتوں میں التوا میں ہیں۔ کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن کی جانب سے اطفال جنسی اذیت پر جاری تازہ رپورٹ میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ 2013 سے 2016 کے دوران تین برسوں میں بچیوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں84 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں 34 فیصدی جنسی استحصال کے معاملہ ہیں۔ سال2013 میں بچیوں کے خلاف کرائم کی 58224 وارداتیں ہوئیں جو 2016 میں بڑھ کر 1 لاکھ 6 ہزار 95 ہوگئیں۔ بیشک سرکار نے جرائم قانون (ترمیم) آرڈیننس 2018 کے ذریعے 12 سال سے کم عمر کی بچیوں سے آبروریزی کے قصورواروں کے لئے موت کی سزا کی سہولت شامل کی ہے لیکن کیا اس سے ریپ رکیں گے؟ اس سہولت پر دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو سوال اٹھائے ہیں۔ ایک دن پہلے ہی لاگو ہوئے اس قانون پر ہائی کورٹ نے سرکار سے پوچھا ہے کہ کیا موت کی سزا سے ریپ کو روکا جاسکتا ہے؟ کیا آپ نے اس بارے میں کوئی اسٹڈی ریسرچ یا آئینی تجزیہ کرایا ہے؟ کیا آپ نے سوچا ہے متاثرہ کو کیا نتیجے بھگتنے پڑ سکتے ہیں؟ کورٹ نے سوال کیا جب ریپ اور مرڈر میں یکساں سزا ہوگی تو کتنے جرائم پیشہ افراد متاثرہ کو زندہ رہنے دیں گے؟ کیا کسی متاثرہ سے پوچھا گیا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ ریپ قانون میں 2017 میں ہوئی ترمیم کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت کے دوران نگراں چیف جسٹس گیتا متل کی بنچ نے رائے زنی کی کہ حال ہی میں کٹھوا اور اناؤ پر ہوئے واویلہ کے بعد مرکز نے قانون میں ترمیم تو کردی لیکن اس کے لئے نہ تو کوئی ریسرچ کی اور نہ ہی کوئی اسٹڈی۔ سرکار اصل اسباب پر غور نہیں کررہی ہے۔ اس میں ریپ متاثرہ کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ آبروریزی کے ملزم عمرقید کی سزا پائے لڑکوں کو تعلیم دینے سے متعلق بھی کچھ نہیں کیا جارہا۔ نربھیا کانڈ کے بعد سرکار نے آبروریزی سے متعلق قوانین شقوں کو بہت سخت کردیا لیکن ریپ اور عورتوں کے تئیں کئے جانے والے دیگر جرائم کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اصل مسئلہ ہے تھانہ سے ہی معاملہ بگاڑ دیا جانا۔ عدالت میں مقدمہ کھڑا ہی نہیں ہوپاتا۔ شہروں میں تو ریپ کی شکایت بھی درج ہوجاتی ہے، قصبوں اور دیہات میں تو الٹے شکایت درج کرنے والے ہی سنگین مشکلوں میں پڑ جاتے ہیں۔ پھر معاملہ جب عدالت میں آتا ہے تو وہاں قسمت والوں کو ہی انصاف مل پاتا ہے۔ آبروریزی کے معاملوں میں سزا دئے جانے کی شرح ابھی قریب24 فیصدی ہے جبکہ بچیوں کے معاملے میں تو یہ محض 20 فیصدی ہے۔ ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ عدالتوں میں مقدمات میں بہت لمبا وقت لگتا ہے۔ آبروریزی کے دیگر معاملوں میں تو ان کے رشتے داروں اور واقف کاروں کا ہاتھ ہوتا ہے اگر ہم واقعی ریپ پرروک لگانا چاہتے ہیں تو ہمیں نئے پس منظر میں پولیس اور عدالت کو زیادہ سرگرم کرنا ہوگا۔ مقدمات تیزی سے ہوں اس کا دھیان رکھنا ہوگا۔ فاسٹ ٹریک عدالت بنانے کیساتھ ساتھ ججوں کی تعداد بھی بڑھانی ہوگی۔ زانیوں کو کوئی بھی عدالت کسی بھی صورت میں ضمانت نہ دے۔ اپیلوں پر بھی روک لگانی ہوگی۔ یا تو یہ کہا جائے کہ سزا کے بعد اپیل صرف سپریم کورٹ میں ایک بار ہوسکتی ہے۔ سپریم کورٹ تین مہینے کے اندر اپنا قطعی فیصلہ دے جس پر کوئی اپیل نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہمیں سماج کی سوچ بدلنی ہوگی اور سماج کے ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے لوگ جرائم پر جب تک غیر سنجیدہ تبصرہ کرتے پائے جاتے ہیں وہاں یہ کام مشکل تو ہے لیکن سخت قانون کے ساتھ ساتھ نظریہ بدلے تبھی مثبت تبدیلی ممکن ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟