بی سی سی آئی کو آر ٹی آئی کے تحت لانے کا مسئلہ

آئینی کمیشن نے پچھلے ہفتے سفارش کی ہے کہ بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کو اطلاعات حق کے تحت قانون کے دائرے میں لایا جاناچاہئے۔ کمیشن نے آگے کہا یہ پبلک حق کی تشریح میں آتا ہے اور اسے سرکار سے اچھا خاصہ مالی فائدہ بھی ملتا ہے۔ سپریم کورٹ نے جولائی 2016 میں کمیشن سے اس بارے میں سفارش کرنے کیلئے کہاتھا۔ اس نے پوچھا تھا کہ کرکٹ بورڈ کو اطلاع کا حق قانون کے تحت لایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ کمیشن نے سرکار سے کہا کہ بی سی سی آئی کو آر ٹی آئی کے تحت لانا بورڈ کے کام کاج کو شفاف بنانے کی سمت میں بڑا قدم ہوسکتا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے بی سی سی آئی سرکاری ادارہ کی طرح ہے اور دیگر کھیل فیڈریشنوں کی طرح بی سی سی آئی بھی کھیل فیڈریشن ہے۔ جب دوسرے کھیل آر ٹی آئی کے دائرے میں آسکتے ہیں تو بی سی سی آئی کیسے بچ سکتی ہے؟ کیونکہ آئینی کمیشن کی سفارشیں مجبوری نہیں ہوتیں اس لئے ایسا کرنا مشکل ہے کہ سرکار آئینی کمیشن کی رپورٹ کو لیکر کسی نتیجے پر پہنچتی ہے لیکن یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یوپی اے سرکار کے وقت میں بھی کھیل بل کے ذریعے بی سی سی آئی کو جوابدہ بنانے کی پہل پروان نہیں چڑھ سکی تھی۔ بی سی سی آئی اطلاعات حق قانون کے دائرہ میں آنے سے اس بنیاد پر بچتی رہی ہے کیونکہ یہ ایک نجی ادارہ ہے۔ یہ ایک کمزور دلیل ہے کیونکہ ایک تو بی سی سی آئی کے تحت کرکٹر دیش کی نمائندگی کرتے ہیں اور دوسرے اسے ٹیکس میں رعایت کے طور پر فاضل درپردہ طور پر سرکاری سہولیات ملتی ہیں۔ کرپشن اور کام کاج کے طریقوں کولیکر بی سی سی آئی لمبے وقت سے تنازعہ میں ہے۔ جسٹس مردوگل کمیٹی نے 2014 میں اپنی رپورٹ میں بی سی سی آئی میں اصلاح کی ضرورت بتائی تھی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے بورڈ میں اصلاح کے لئے سابق چیف جسٹس آر ایم لوڈھا کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی۔ کمیٹی نے بورڈ میں سنگین خامیاں پائی تھیں اور اسے کرپشن اور سیاسی دخل اندازی سے آزادکرنے کے بارے میں سفارشیں دی تھیں۔ لوڈھا کمیٹی نے کہاتھا کرکٹ بورڈ ایک پبلک ادارہ ہے ، اس کے فیصلوں میں شفافیت اور جوابدہی کی کمی ہے تبھی سے بورڈ کو آر ٹی آئی کے دائرہ میں لانے کی قواعد بھی چل رہی ہے۔ اس معاملہ میں آئینی کمیشن کا یہ نتیجہ تو صحیح ہے کہ دیگر کھیل تنظیموں کی طرح بی سی سی آئی بھی ہے اور اسے بھی ان تنظیموں کی طرح اطلاعات حق قانون کے دائرہ میں آنا چاہئے لیکن اس قانون کے دائرہ میں آنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہونا چاہئے کہ دیش کی سب سے بڑے امیرکھیل ادارہ کا سرکاری کرن ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آج اگر ہندوستانی کرکٹ دنیا میں بلندی پرہے تو یہ بی سی سی آئی کی ہی دین ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟