کم جانگ کے اعلان سے دنیا نے راحت کی سانس لی

بہت دنوں سے ٹکراؤ کے بعد آخرکار اچھی خبر آئی ہے۔ نہیں تو ایک وقت تو ایسا لگ رہا تھا کہیں تیسری عالمی جنگ نہ چھڑ جائے۔ نارتھ کوریا اور امریکی بلاک میں تو نیوکلیائی جنگ تک کی نوبت آگئی تھی لیکن خطرہ ٹل گیا لگتا ہے۔ نارتھ کوریا کے تانا شاہ کم جانگ ان نے سنیچر کو اپنے فیصلے سے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ انہوں نے اعلان کیا ان کا دیش اب نیوکلیائی و لمبی دوری کے میزائلوں کا تجربہ نہیں کرے گا۔ دیش کے نیوکلیائی تجربہ گاہ پنگیٹی کو بھی بند کردیا جائے گا۔ کم کے اعلان پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ اب نارتھ کوریا نیوکلیائی تجربہ نہیں کرے گا۔ پوری دنیا کے لئے یہ اچھی خبر ہے۔ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ کم جانگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو لیکر بھی کافی خوش ہوں۔ وہیں ساؤتھ کوریا نے بھی اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں نارتھ کوریا نے 89 میزائل تجربہ کئے ہیں اور نارتھ کوریا کا نیوکلیائی مرکزپنگیٹی ہے جو 2006 سے چل رہا ہے۔ یہاں 2016-2017 میں ہوئے پانچویں اور تجربہ اہم تھے۔ ان تجربوں میں ایک کمپیکٹ نیوکلیئر ڈیوائز کا استعمال ہوا تھا جسے کم اور درمیانی انٹرمیڈیم اور انٹر کونٹینینٹل بیلسٹک میزائل پر لگایا جاسکتا ہے۔ ان میزائلوں کی مار صلاحیت دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کے ذریعے ناکا ساکی پر گرائے گئے نیوکلیائی بم سے دو تین گنا زیادہ ہے۔ نارتھ کوریا کی بنائی گئی 150 میزائلوں میں سے صرف تین ہی امریکہ تک نیوکلیئر حملہ کرسکتی ہیں۔ 33 سال میں نارتھ کوریا 150 سے زیادہ میزائل تجربہ کر چکا ہے۔ ان میں آدھے سے زیادہ کم جانگ نے 2011 میں صدر بننے کے بعد کئے ہیں۔ کم نے اپنے سات سال کے عہد میں تقریباً 89 میزائلوں کا تجربہ کیا ہے جبکہ کم جانگ کے داداکم سنکئی سنگ نے 10 سال میں 15 میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ پچھلے سات سال میں نارتھ کوریا نے 6 میزائل تجربہ بھی کئے ہیں۔ آخر کیوں لیا کم نے یہ فیصلہ ؟ نارتھ کوریا اپنے ہتھیار پروگراموں میں تیزی سے تکنیک ڈولپ کرچکا ہے۔ نیوکلیائی ہتھیار پروگرام چلانے کے سبب نارتھ کوریا پر اقوام متحدہ سمیت تمام ملکوں نے بین الاقوامی پابندی لگا رکھی ہے۔ ایسے میں مانا جارہا ہے کہ وہ اب اپنے دیش کی معیشت اور دوسروں سے تعلقات بہتر بنانے پر دھیان دیناچاہتا ہے۔ کچھ وقت پہلے بیرونی ملک کے دورہ پر بھی گئے تھے اپنے وزیر خارجہ کو روس کے دورہ پر بھیجا۔ اب اگر وہ آگے اور ٹیسٹ نہ کرنے کے اعلان کے بدلے ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ کر بات چیت کا موقعہ حاصل کررہے ہیں تو یہ بڑی بات ہوگی کیونکہ یہ کام ان کے والد یا دادا نہیں کرسکے۔پورے معاملہ میں امریکہ اور چین کے رخ کی بھی تعریف کرنی ہوگی۔ پوری دنیا نے راحت کی سانس لی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟