چیف جسٹس کیخلاف مواخذہ کا نوٹس

کئی دنوں سے چل رہی چہ میگوئیوں کے بعدکانگریس لیڈر شپ میں اپوزیشن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سات پارٹیوں کے لیڈروں کے دستخط والی درخواست راجیہ سبھا کے چیئرمین کو سونپ دی گئی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ جب دیش کے سب سے بڑے جج کے خلاف امپیچمنٹ چلانے کا ریزولیوشن لایا گیا ہے۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکیانائیڈو کو 71 ممبر کے دستخط والے مواخذہ ریزولیوشن کا نوٹس دینے کے بعد ان پارٹیوں نے کہا کہ آئین اور عدلیہ کی حفاظت کے لئے ہمیں بھارتی من سے یہ قدم اٹھانا پڑا ہے۔ کانگریس نیتا کپل سبل نے 12 جنوری کی چار ججوں کی پریس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ جوڈیشیری کا معاملہ اندر ہی سلجھ جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس قدم کا جسٹس لوہیا معاملہ اورایودھیا کیس کی سماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مواخذہ کیا ہے؟ یہ مقدمہ چلانے کی ایک کارروائی ہے جس کا استعمال صدر اور سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کا ذکر آئین کی دفعہ 61،124(4)(5) ، 217 اور 218 میں ملتا ہے۔ مواخذہ کی تجویز صرف تب لائی جاسکتی ہے جب آئین کی خلاف ورزی یا نازیبہ برتاؤ یا نا اہل ثابت ہو گئے ہیں۔ قاعدے کے مطابق مواخذہ ریزولیوشن پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں لایا جاسکتا ہے لیکن لوک سبھا میں اسے پیش کرنے کے لئے کم سے کم 100 ممبران پارلیمنٹ کے دستخط اور راجیہ سبھا میں کم سے کم 50 ممبران کے دستخط ضروری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اگر اس ایوان کے اسپیکر یا چیئرمین اس ریزولیوشن کو قبول کرلیں(وہ خارج بھی کرسکتے ہیں) یاپھر تین ممبران کی ایک کمیٹی بنا کر الزامات کی جانچ کروائی جاتی ہے۔ اس کمیٹی میں ایک سپریم کورٹ کے جج ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ایک ایسے نامور شخص کو شامل کیا جاتا ہے جسے اسپیکریا چیئرمین اس معاملے کے لئے صحیح مانیں۔ مگر یہ ریزولیوشن دونوں ایوانوں میں لایاگیا ہے تو دونوں ایوانوں کے چیئرمین مل کر ایک جوائنٹ کمیٹی بناتے ہیں۔ دونوں ایوانوں میں ریزولیوشن دینے کی صورت میں طے تاریخ کے بعد دیا گیا پرستاؤ منسوخ مانا جاتا ہے۔ جانچ پوری ہوجانے کے بعد کمیٹی اپنی رپورٹ اسپیکر یا چیئرمین کو سونپ دیتی ہے اور اسے اپنے ایوان میں پیش کرتے ہیں۔ اگر جانچ میں عہدیدار قصوروار ثابت ہو تو ایوان میں ووٹنگ کرائی جاتی ہے۔ ریزولیوشن پاس ہونے کے لئے اسے ایوان کے کل ممبران کی اکثریت یا ووٹ دینے والے ممبران پارلیمنٹ میں سے کم سے کم 2 تہائی کی حمایت ملنا ضروری ہے۔ اگر دونوں ایوان میں یہ ریزولیوشن پاس ہوجائے تو اسے منظوری کے لئے صدر کو بھیجا جاتا ہے۔ کسی جج کوہٹانے کا حق صرف صدر کے پاس ہے۔ آج تک کسی جج کو نہیں ہٹایا گیا کیونکہ اس سے پہلے کے سارے معاملوں میں کارروائی کبھی پوری نہیں ہوسکی۔ یا تو ریزولیوشن کو اکثریت نہیں ملی یا پھر ججوں نے اس سے پہلے ہی استعفیٰ ے دیا۔ حالانکہ اس معاملہ پرتنازع ہے لیکن سپریم کورٹ کے جج راما سوامی کو مقدمہ کا سامناکرنے والا پہلا جج مانا جاتا ہے۔ ان کے خلاف مئی 1993 میں مواخذہ ریزولیوشن لایا گیا تھا۔ یہ پرستاؤ لوک سبھا میں گر گیا کیونکہ اس وقت اقتدار میں موجودہ کانگریس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور پرستاؤ کو دوتہائی اکثریت نہیں ملی۔ کولکاتہ ہائی کورٹ کے جج سومتر سین دیش کے دوسرے ایسے جج تھے جنہیں 2011 میں نامناسب برتاؤ کے لئے مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھارت کا اکیلا ایسا مواخذہ کا معاملہ ہے جو راجیہ سبھا میں پاس ہوکر لوک سبھا تک پہنچا۔ اس پر ووٹنگ ہونے سے پہلے جسٹس سین نے استعفیٰ دے دیاتھا۔
اسی سال سکم ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پی ۔ ڈی دناکرن کے خلاف بھی مواخذہ لانے کی تیاری ہوئی تھی۔ لیکن سماعت کے کچھ دن پہلے ہی دناکرن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 2015 میں گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جے پی پاردیوالا کے خلاف ذات پات سے وابستہ نامناسب ریمارکس دینے کے الزام میں مواخذہ لانے کی تیاری ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس سے پہلے ہی اپنا ریمارکس واپس لے لیا۔ 2015 میں ہی مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس کے گنگیل کے خلاف بھی مقدمہ لانے کی تیاری ہوئی لیکن جانچ کے دوران ان پر لگے الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔ آندھراپردیش ،تلنگانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سی وی ناگا ارجن ریڈی کے خلاف 2016 اور 2017 میں دو بار مقدمہ لانے کی کوشش کی گئی لیکن ان ریزولیوشن کو کبھی ضروری حمایت نہیں ملی۔ مواخذہ کے نوٹس پر کانگریس کے اندر بھی سنگین اختلافات اٹھتے دکھائی دئے۔ سینئر کانگریسی لیڈر سلمان خورشید نے کہا میں اس فیصلے میں شامل نہیں ہوں۔ وہیں کانگریس کے سابق انچارج ہری کیش بہادر نے کہا کہ صرف اختلافات ہی مواخذہ شروع کرنے کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔ ہمیں لگتا ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں جانتی ہیں جسٹس مشرا کے خلاف مقدمہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اگر اس ریزولیوشن پر ہاں ہوں گئی تو انہیں اپنی ساری باتیں کہنے کا موقعہ مل جائے گا اور اس کے بعد بھی اگر پرستاؤ گرجاتا ہے تو کوئی بات نہیں اپوزیشن جو چاہتا تھا وہ توہوئی ہی گیا ہوگا۔ لیکن ابھی تو صرف نوٹس دیا ہے، یہ منظور ہوتا ہے یا نہیں اس پر بھی بڑا سوالیہ نشان لگا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟