کیا اب بھی جج لوہیا معاملہ پر مکمل روک لگے گی

ہندوستانی سپریم کورٹ نے جسٹس لوہیا کی موت پر دائر مفاد عامہ کی عرضیوں کو مسترد کرتے ہوئے جو ریمارکس دئے ہیں وہ کافی اہم ترین ہیں۔ عدالت نے کہا کہ سیاسی مقاصد کی تکمیل اورسرخیوں میں آنے کے لئے مفاد عامہ کی عرضیوں کا استعمال ہورہا ہے۔ ایسے معاملوں پر اس کو لیکر دیش بھر میں طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے سلسلے میں اگر عدلیہ ایسی رائے زنی کررہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ جو اشو تھا ہی نہیں اسے جان بوجھ کر مشتبہ اور مضحکہ خیز بنایا گیا ہے۔ تنازع شاید ابھی بھی ختم نہ ہو، لیکن سپریم کورٹ نے اپنی طرف سے جسٹس برج گوپال کرشن لوہیا کے معاملہ میں مکمل طور پر روک لگادی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے ان کی موت جن حالات میں ہوئی اس کی آزادانہ جانچ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ معاملہ میں اٹھائے جارہے تمام اعتراضات کو خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا کی رہنمائی والی بنچ نے ان ججوں کی گواہی کو اہم مانا تھا جن کا کہنا تھا جسٹس لوہیا کی موت دل کا دورہ پڑنے کے سبب ہوئی تھی۔ حالانکہ تمام سیاسی اسباب سے کئی لوگ ان کی موت کو پراسرار مان رہے تھے۔ اس کے لئے کافی بڑی کمپین چلائی جارہی تھی۔ تقریباً ساڑھے تین سال پہلے ایک شادی تقریب کے لئے ناگپور گئے جسٹس لوہیا کو سفر کے دوران ہی دل کا دورہ پڑا تھا تب سے یہ اشو سرخیوں میں بنا ہوا ہے۔ تنازع اس لئے بھی بنا ہے کہ جسٹس لوہیا ان دنوں سہراب الدین انکاؤنٹرمعاملہ کی سماعت کررہے تھے جس میں ایک ملزم بھاجپا پردھان امت شاہ بھی تھے۔ پورے معاملہ میں یہی ایک ایسا پہلو ہے جس نے حساس بنا دیا اور جسٹس لوہیا کی موت کو باقاعدہ ایک سیاسی اشو بنا کر اس پر سیاست شروع ہوگئی۔ سیاست اتنی ہوئی کہ 1 دسمبر 2014 کو ان کی موت کو لیکر اب تک سہراب الدین کا معاملہ پیچھے چلا گیا۔ جسٹس لوہیا کی موت اہم معاملہ بن گیا۔ میڈیا رپورٹوں اور ان پر مبنی عرضیوں میں کہنا تھا کہ امت شاہ کو کلین چٹ دینے کیلئے تیار نہ ہونے کی قیمت جج لوہیا کو چکانی پڑی۔ بہرحال اب جب ہمارے دیش کی سپریم کورٹ اپنے ضمیر سے سبھی پہلوؤں اور دستیاب ثبوتوں پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پرپہنچی ہے کہ جج لوہیا کی موت مشتبہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے تو یہ بات یہیں ختم ہو جانی چاہئے۔ اب جب سبھی فریقین کو سننے کے بعد سپریم کورٹ کو لگا کہ جج لوہیا کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی اس میں کوئی سازش نہیں تھی تو پھر آپ کو اور ہمیں قبول کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ لیکن جب ارادہ سچائی تک پہنچنے کی جگہ سیاسی بن جائے توایسے معاملہ کو جج موصوف قبول نہیں کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟