جمہوری سماج میں تشدد حل نہیں

دلتوں اور قبائلیوں کی اذیت ایک سماجی سچائی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اسے دور کرنے کی بھی سخت ضروری ہے۔ لیکن جو طریقہ اس کو کرنے میں اپنایا گیا ہے وہ صحیح نہیں مانا جاسکتا۔تشدد کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی یہ کام ہوسکتا ہے۔ بھارت بند بھلے ہی نہ ہوا ہو لیکن بھارت ہل ضرور گیا ہے۔ درج فہرست ذاتوں و قبائلی ایکٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کا جو فیصلہ پچھلے دنوں آیا اسے لیکر دلت فرقہ میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے عدالت نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اس قانون میں صرف ابتدائی بنیاد پر گرفتاری ہوتی ہے وہ غلط ہے اور ماڈل پوزیشن تو شاید یہ ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ اگر کسی مسئلہ پر کوئی فیصلہ دے دے تو یا تو اسے مان لیا جائے نہیں تو اس کے خلاف نظرثانی عرضی ڈالی جائے۔ یا پھر ڈال دی گئی ہے اور اس پر بھی سپریم کورٹ نے وضاحت کردی ہے یہ الگ اشو ہے۔ ایسا نہیں کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کے خلاف جنتا پہلی بار سڑکوں پر اتری ہو۔ جمہوریت میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ یہ نہ تو لاٹھی اور طاقت سے چلتی ہے اور نہ ہی غیراخلاقی کاموں سے۔ جمہوریت کو چلانے کی طاقت سماجی اور اقتصادی انصاف ہے اور اسے عدالتی سطح پر ہی نہیں بلکہ دیگر اداروں کے سطح پر یقینی کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ دنیا بھر کے شہری اور سرکاری تنظیم انسانی حقوق ادارہ ہمیشہ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر کسی غیر ارادتاً جرم میں صرف ایک ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتاری کی سہولت ہے تو اس کا بیجا استعمال ہوگا۔ ایسے ہم نے جہیز انسداد قانون میں بھی دیکھا ہے۔ منگل کو سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کی نظرثانی پٹیشن پر تبصرہ کیا کہ ہم نے ایس سی؍ ایس ٹی ایکٹ کو کمزور نہیں کیا ہے۔ جو لوگ اس کی مخالفت کررہے ہیں انہوں نے فیصلہ کوصحیح طرح سے نہیں پڑھا ہو یا پھر اس کو ذاتی مفادات پرستوں کے ذریعے انہیں گمراہ کردیا گیا ہے۔ ہم نے یہی کہا ہے کہ بے قصور افراد کو سزا نہیں ملنی چاہئے۔ بھارت بندمیں 15 ریاستوں میں مظاہرے ہوئے۔ اس دوران ہندی بیلٹ کی10 ریاستوں میں تشدد کے دوران 13 لوگوں کی جانیں گئیں۔ دراصل سیاسی پارٹی دلت ووٹوں کے لئے کچھ کرسکتی ہے۔ دیش میں17 فیصد دلت ووٹ ہے اور 150 سے زیادہ لوک سبھا سیٹوں پر دلتوں کا اثر پڑتا ہے اس لئے تحریک کے ساتھ سبھی پارٹیاں کھڑی ہیں۔ جن 12 ریاستوں میں تشدد ہوا وہاں ایس سی ؍ ایس ٹی طبقہ سے 80 ایم پی ہیں اور دلتوں کواپنی رائے ظاہر کرنے کا پورا حق ہے لیکن تشدد کا طریقہ صحیح نہیں مانا جاسکتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟