فائرننگ لائن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس

بھارت کے چیف جسٹس شری دیپک مشرا کے خلاف تحریک ملامت کی آہٹ کے درمیان عدلیہ میں غیر ضروری غیر آئینی سرکاری مداخلت کے سنگین الزام کے بھی سامنے آنے سے اس الزام کی پھر سے تصدیق ہوگئی ہے کہ ہماری عدلیہ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے دوسرے نمبر کے سینئر جج جسٹس چلمیشور نے چیف جسٹس دیپک مشرا کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ مختلف عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں سرکار کی سیدھی مداخلت پر سپریم کورٹ کی پوری کورٹ سماعت کرے۔ 21 مارچ کو لکھے اپنے خط کی کاپی جسٹس چلمیشور نے سپریم کورٹ کے دیگر 22 جج صاحبان کو بھی بھیجی۔ اس بار جسٹس چلمیشور نے سرکار اور عدلیہ کے درمیان مبینہ دوستی پر اعتراض جتاتے ہوئے اسے جمہوریت کے لئے خطرناک بتایا ہے۔ ڈھائی مہینے بھی چیف جسٹس دیپک مشرا کے طریقہ کار پر سوال اٹھانے والے جسٹس چلمیشور نے الزام لگایا ہے کہ ججوں کی تقرری سے متعلق سپریم کورٹ کالے قواعد کی تعمیلات کو مرکزی سرکار اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر منظوری یا اس کو آتھرائزڈ کرتی آرہی ہے۔ ایسے میں گمراہی ہی کے جب کالے قواعد کے ذریعے دوبارہ ویریفائی کے نام پر بھی سرکار نے اسے نامنظور کردیا جبکہ آئینی تقاضوں کے مطابق دوبارہ بھیجے گئے نام کو سرکار کے ذریعے منظور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ دیگر مثال دیتے ہوئے جسٹس چلمیشور نے چیف جسٹس دیپک مشرا سے مطالبہ کیا ہے کہ موضوع کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کی پوری بنچ اس پر غور کر فیصلہ کرے۔ ظاہر ہے کہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے چار سینئر جج صاحبان نے پریس کانفرس کر چیف جسٹس شری مشرا کے خلاف جو الزام لگائے تھے ان کی تپش ابھی بھی باقی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا اشو اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے ججوں پر عدلیہ کے بڑھتے قبضے کے سامنے اپنی منصفانہ اور اپنی تنظیمی ایمانداری ہونے کے الزام لگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس دیپک مشرا اس وقت فائرننگ لائن(تنقیدوں کے سائے میں) میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں نے راجیہ سبھا میں تحریک ملامت لانے کی تیاری کرلی ہے۔ مارکسوادی پارٹی سمیت کچھ علاقائی پارٹیوں کے ذریعے تیار ریزولوشن کے ڈرافٹ پر کچھ پارٹیوں نے تو دستخط بھی کردئے ہیں۔ سی پی ایم کے راجیہ سبھا ایم پی ماجد میمن نے تحریک ملامت لانے کی تصدیق کی ہے۔ تحریک ملامت لانے کے لئے کسی بھی ایوان میں 50 ممبران کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ اسے پاس کرانے کے لئے ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ جنوری میں سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان نے پریس کانفرنس کر چیف جسٹس پر روسٹر ٹھیک سے لاگو نہ کرنے سمیت کئی الزام لگائے تھے۔ ایک معاملہ جج ڈی ایم لوہیا کی پراسرار حالات میں موت سے متعلق عرضی کا تھا۔ تحریک ملامت پر پچھلے ہفتہ کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کے درمیان مسلسل کئی میٹنگ ہوئی ہیں۔ اتفاق رائے بنانے کے بعد کانگریس اور این سی پی نے تحریک ملامت ریزولوشن سے متعلق مسودے پر دستخط کردئے ہیں۔ اگر اپوزیشن آگے بڑھتی ہے تو دیپک مشرا پہلے چیف جسٹس ہوں گے جن کے خلاف ایسا ریزولوشن آئے گا۔ اس سے پہلے دو ججوں کے خلاف راجیہ سبھا میں تحریک ملامت پیش کی جاچکی ہے۔ 2011 میں سب سے پہلے کولکاتہ ہائی کورٹ کے سابق جج سمترا سین اور اس کے بعد سکم ہائی کورٹ کے سابق جسٹس پی ڈی دناکرن کے خلاف ایسی تحریک پیش کی گئی تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟