محض16 گھنٹے میں پی ایم نے پلٹا اسمرتی ایرانی کا فیصلہ

شکر ہے وزیر اعظم کے دفتر نے وقت رہتے دخل دیااور فرضی خبروں پر روک لگانے کے مبینہ مقصد سے ایک دن پہلے ہی جاری کی گئی سرکار کی گائڈ لائنس واپس لے لی گئیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مداخلت کر سرکار کے خلاف ہونے والے بونڈر سے بچا لیا۔ اسمرتی ایرانی سربراہی میں چلنے والی وزارت اطلاعات و نشریات نے جاری کردہ پریس نوٹ میں کہا تھا کہ صحافیوں کی مانیتا سے متعلق گائڈ لائنس کے مطابق اگر فرضی خبر کی اشاعت یا ٹیلی کاسٹ کی تصدیق ہوتی ہے تو پہلی بار ایسا کرتے پائے جانے پر پترکار کی مانیتا چھ مہینے کے لئے معطل کی جائے گی اور دوسری بار ایسا کرتے پائے جانے پر اس کی منظوری ایک سال کے لئے معطل ہوجائے گی۔ اس کے مطابق تیسری بار خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جانے پر پتر کار (خاتون ؍مرد) کا مستقل ایگریڈیشن منسوخ کردیا جائے گا۔وزارت نے کہا تھا کہ اگر فرضی خبر کے معاملہ پرنٹ میڈیا سے متعلق ہیں تو اس کی کوئی شکایت بھارتیہ پریس کونسل کو بھیجی جائے گی اگر یہ الیکٹرانک میڈیا سے متعلق پائی جاتی ہے تو شکایت نیوز براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن کو بھیجی جائے گی تاکہ یہ مقرر ہوسکے کہ خبر فرضی ہے یا نہیں۔ وزارت نے کہا تھا کہ ان ایجنسیوں کو 15 دن کے اندر خبر کے فرضی ہونے کا جواب داخل کرنا ہوگا۔ پیر کی دیررات جاری گائڈ لائنس کو پی ایم مودی نے محض 16 گھنٹے بعد ہی پلٹ دیا۔ انہوں نے نہ صرف انہیں واپس لینے کی ہدایت دی بلکہ یہ بھی کہا ایسے معاملوں پر پریس کونسل آف انڈیا اور نیوز براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن جیسے اداروں کو ہی فیصلہ لینا چاہئے۔ مگر جس طرح سے اسمرتی ایرانی اسے لیکرآئیں اور جس طرح اس پر اٹھائے گئے اعتراض کا جواب دے رہی تھیں وہ حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ افواہوں اور فرضی خبروں پر روک لگانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر پہلے یہ تو واضح ہو کہ فرضی خبر ہے کیا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکار کے نوٹ میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔ فیک نیوز کے حق میں کوئی نہیں ہے۔ صحافت حقائق پر مبنی ہو یہ ایک عام اصول ہے لیکن سچا جرنلسٹ چاہتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھے یا بولے اس کی بنیاد سچائی اور پختگی پر منحصر ہو۔ جو ایسا نہیں کررہا ہے وہ پترکار نہیں ہے۔ لیکن صحافت کو کنٹرول کریں یہ نظریہ ہی غیر جمہوری ہے۔ اس گائڈ لائنس میں صحافت کو کنٹرول کرنا اور خوف زدہ کرنے کی منشا تھی۔ کونسی خبر غلط ہے اسے طے کرنا انتہائی مشکل ہے۔ وزیراطلاعات و نشریات کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ جنہیں مانیتا پراپت رپورٹر کہتے ہیں ان کی تعداد کل سرگرم صحافیوں کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی گائڈ لائنس جاری ہوئیں تو ادھر صحافیوں کا احتجاج شروع ہوگیا۔ ایڈیٹر گلڈز آف انڈیا نے بیان جاری کر وزارت اطلاعات و نشریات کے نوٹیفکیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اس سے صحافیوں کے ٹارچر اور اخبارات کو جھکانے کے مقصد سے تمام اوچھی شکایتوں کا راستہ کھل جائے گا۔ گلڈ نے نوٹیفکیشن کو واپس لینے کے لئے پی ایم او کی مداخلت کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ ایسے اشو پر پریس کونسل آف انڈیا ہی فیصلہ کرے گی۔ سرکار صحافیوں کو مانیتا دے یہ ویسے بھی مناسب نہیں ہے۔ ایسا کرنے کی جگہ وہ صحافت کو اپنی خواہش کے مطابق چلانے کا تصور کرنے لگی ہے۔ خبریں فرضی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کا ذمہ میڈیا کی ریگولیٹری ایسوسی ایشن پریس کونسل آف انڈیا اور نیوز براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کو ہی سونپا گیا تھا لیکن سرکار ان خبروں کو فرضی مان سکتی ہے اس کی مثال پچھلے دنوں میں وزیر اطلاعات ونشریات سمیت 13 مرکزی وزرا کے ذریعے ٹوئٹ کئے گئے اس ویب سائٹ کے لنک سے ملی جس میں چار بڑی خبروں کو بے نقاب کرنے کا دعوی کیا گیا تھا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ان چار مبینہ فرضی خبروں میں ایسی دو خبریں بھی شامل تھیں جو دیش کی نامور انگریزی اخباروں میں پولیس ایف آئی آر اور خارجہ سکریٹری کے ذریعے کیبنٹ سکریٹری کو بھیجے گئے نوٹ کے حوالہ سے چھاپی گئی تھیں۔ یعنی ہماری مرکزی کیبنٹ کا ایک بڑا حصہ بھارت سرکار کے ذمہ دار لوگوں کے حوالہ سے دی گئی خبروں کو بھی فرضی قراردینے کی مہم کی شامل ہوگیا۔ ہماراخیال ہے کہ صاف ستھری صحافت کی ضرورت ہے لیکن یہ اس کے اندر سے ہونے دیا جائے۔ سرکار اس سے دور رہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟