پٹاخہ تاجروں کی سپریم کورٹ سے درخواست

دیوالی کے موقعہ پر پٹاخوں کے سبب ہونے والی آلودگی کو دیکھتے ہوئے عزت مآب سپریم کورٹ نے 1 نومبر تک کے لئے دہلی این سی آر میں پٹاخوں کی فروخت پر روک لگادی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کچھ شرطوں کے ساتھ پٹاخوں کی فروخت 1 نومبر 2017 یعنی دیوالی گزرنے کے بعد پھر سے شروع کی جاسکے گی۔ اپنے حکم میں عدالت ہذا نے کہا کہ وہ اس پابندی کے ساتھ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا دیوالی سے پہلے پٹاخوں کی بکری پر پابندی سے آلودگی میں کمی آتی ہے یا نہیں۔ پٹاخے چھوڑنے پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جن لوگوں نے پہلے سے پٹاخوں کی خریداری کر لی ہے وہ انہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ پٹاخوں کی فروخت پر پابندی کی عرضی تین بچوں کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ ان بچوں کے پھیپھڑے دہلی میں آلودگی کے سبب ٹھیک طرح سے ڈولپ نہیں ہو پائے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہلی میں آلودگی کا مسئلہ کئی برسوں سے اٹھ رہا ہے۔ کافی کوششوں کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ موجودہ اعدادو شمار کو دیکھیں تو سینٹرل پولوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق دہلی میں آب و ہوا بھی سانس لینے کے لائق نہیں ہے۔ دوسری طرف پٹاخوں کے سیلرز کے لئے اس آرڈر سے الجھن کی صورتحال بن گئی ہے۔ اپنے پہلے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دہلی اور این سی آر میں پٹاخوں کی فروخت پر روک کچھ شرطوں کے ساتھ واپس لے لی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے پچھلے حکم میں کہا تھا کہ دہلی میں پٹاخوں کی فروخت کے لئے پولیس کی نگرانی میں لائنس دئے جائیں۔ زیادہ سے زیادہ 500 عارضی لائسنس دئے جاسکیں گے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ 2016 میں دئے گئے لائسنس میں سے 50 فیصدی کو ہی اس بار لائسنس دئے جائیں گے لیکن دیوالی سے 10 دن پہلے کورٹ کا یہ فیصلہ ان تمام پٹاخہ مرچنٹ کے لئے پریشانی لیکر آیا ہے۔ پٹاخہ لیڈر سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے کافی مایوس ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ان کو کافی نقصان ہوگا۔ ایک پٹاخہ بیچنے والے دوکاندار کا کہنا ہے کہ پٹاخوں کا کاروبار کرنے والے 10 مہینے سے خالی بیٹھے تھے۔ دسمبر میں سپریم کورٹ نے شرطوں کے ساتھ لائسنس تجدید کرنے کی اجازت دی اس کے بعد ہم نے لائسنس رینیو کرایا۔ دیوالی پٹاخوں کا تہوار ہے اس لائن سے وابستہ ہر تاجر سال میں صرف اسی سیزن میں اچھی کمائی کی امید رکھتا ہے ایسے میں دیوالی کے ٹھیک پہلے لگائی گئی اس پابندی سے کاروبار سے جڑے لوگوں کو مشکل دور سے گزرنا پڑے گا۔ پٹاخہ کاروبار سے تقریباً دہلی این سی آر میں 10 لاکھ لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سبھی کے سامنے دھندہ بند ہونے کی نوبت آگئی ہے۔ دیوالی پر برسوں سے پٹاخے چلتے آئے ہیں۔ کچھ برسوں سے لوگ خود پٹاخوں کا کم استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے پٹاخوں سے آلودگی بڑھتی ہے لیکن پٹاخے تو سال میں ایک دن چلائے جاتے ہیں اوران کو جلانے کے پیچھے دھارمک آستھا ہے۔ دوسری طرف پورے برس گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی ہیں۔ گاڑیوں سے نکلنے والی آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔ ہم سبھی پٹاخوں کا مزہ لیتے ہیں پھر جن تاجروں نے مہینے پہلے آرڈر دے کر پٹاخوں کی خریداری اسی امید سے کرلی کہ دیوالی میں نکل جائیں گے، ان کا کیا ہوگا؟ پٹاخوں پر پابندی لگے سے تاجروں پر دوہری مار پڑی ہے۔ 12 ستمبر کو سپریم کورٹ نے پٹاخے بیچنے کی اجازت دی، جس کے بعد تاجروں نے مال خریدلیا ، آرڈر بھی دے دئے۔20 دن کا وقت رہا جس میں تاجروں نے دیوالی کے چلتے اسٹاک کرنا شرو ع کردیا۔اسی دوران کچھ لڑکوں کو کام پر رکھا، کچھ نے دوکان کرائے پر لی اور طرح طرح کے انتظامات کئے۔ اس پر کافی پیسہ خرچ ہوا۔ پھرسے بکری پر پابندی لگنے سے پٹاخہ تاجروں کو تو روزی روٹی کے لالے پڑجائیں گے۔ اس لئے سبھی پٹاخہ تاجر سپریم کورٹ سے گزارش کررہے ہیں کہ انہیں صرف دیوالی کے تہوار تک پٹاخہ بکری کی مہلت دی جائے جس سے جو مال خریدا ہے وہ بیچ سکیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟