مہا بھارت کے کرداروں میں الجھی دیش کی معیشت کی کہانی

بھاجپا کے سینئر لیڈر یشونت سنہا ، ارون شوری اوروزیر اعظم نریندر مودی و وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے مہابھارت کے کرداروں میں الجھی دیش کی معیشت کی کہانی کو مزید الجھا دیا ہے۔یشونت سنہا نے مہابھارت کے کردار نریش شلے سے موازنہ کرنے پر پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہا بھارت کے بھیشم پتاما ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر معیشت کا چیر ہرن نہیں ہونے دیں گے۔ بھاجپا کا کہنا ہے بھیشم پتاما تھے تو کورووں کے ساتھ ہی اور چیر ہرن کے وقت انہوں نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ مودی نے’دی انسٹیٹیوٹ آف کمپنی سکریٹریز آف انڈیا‘ کی گولڈن جوبلی تقریب میں بغیر کسی کا نام لئے سرکار کی چوطرفہ تنقید کے جواز میں کہا تھا کہ کچھ لوگ شلے ذہنیت کے ہیں، جن کی عادت مایوسی پھیلانے کی ہوتی ہے۔ مہابھارت میں نکل اور سہدیو کے ماما اور چندر نریش شلے کا ذکر ایک ایسے شورویر یودھا کی شکل میں ہے جو پانڈو کے حمایتی تھی، لیکن کرن کے سارتھی بنے تھے۔ وہ ہمیشہ کرن کا حوصلہ گراتے رہتے تھے۔ یشونت سنہا نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر انٹرویو میں کہا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں مہا بھارت کے شلے کا ذکر کیا ہے، لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ مہا بھارت میں ہی ایک اور کردار ہے اور وہ ہے بھیشم پتاما کا۔ انہوں نے کہا ایسا کہا جاتا ہے کہ جب دروپدی کا چیر ہرن ہورہا تھا تو بھیشم پتاما خاموش رہ گئے تھے لیکن اب اگر معیشت کا چیر ہرن ہوگا تو میں بولوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ویسے بھی شلے کی بات نکلی ہے تو بتادوں کہ شلے کورووں کی طرف سے کس طرح شامل ہوئے کہانی سب کو پتہ ہے شلے نکل اور سہدیو کے ماما تھے۔ وہ تو پانڈووں کی طرف سے لڑنا چاہتے تھے مگر ٹھگی کے شکار ہوگئے۔ دراصل بھاجپا اور سرکار سے کنارے کردئے گئے بزرگ نیتاؤں کی لمبی خاموشی کے بعد نئے سرے سے ہو رہے ایک ساتھ حملے سے بھاجپا ہائی کمان چوکس ہو گیا ہے۔ بہار اسمبلی چناؤ میں ملی کراری شکست کے بعد سرکار اور پارٹی لیڈر شپ پر بزرگ فوج نے لمبے عرصے کے بعد معیشت میں آئی سستی کے بہانے دوسرا حملہ کیا ہے۔ پارٹی اور سرکار کو ڈر ہے کہ چناوی برس میں داخل ہونے سے ٹھیک پہلے شروع ہوئے اس حملے سے کہیں اپوزیشن کو منفی ماحول بنانے میں کامیابی نہ مل جائے۔ حالانکہ پارٹی کے لئے راحت کی بات یہ ہے کہ اس باغی خیمے کو پارٹی اور سرکار کی مکھیہ دھارا میں شامل نیتاؤں کا ساتھ نہیں مل رہا ہے۔ مئی2014 میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پی ایم مودی اور پارٹی صدر امت شاہ تب بزرگ سینا کے نشانے پر آئے تھے جب بہار اسمبلی چناؤ میں پارٹی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ تب پارٹی کے مارگ درشک منڈل میں شامل لال کرشن اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی، شانتا کمار، یشونت سنہا نے خط لکھ کر ہارکی جوابدہی طے کرے کی مانگ کی تھی ۔ حالانکہ پارٹی کے دیگر لیڈروں کی حمایت نہ مل پانے کے سبب بزرگ فوج کا کمپین دھارا شاہی ہوگیا۔ اب معیشت میں آئی سستی کے بہانے شروع ہوئے اس ابھیان سے فی الحال اڈوانی، جوشی اور شانتا کمار دور ہیں مگر باجپئی سرکار میں منتری رہ چکے یشونت سنہا،ارون شوری اور شتروگھن سنہا اور سوامی چنمے آنند حملہ آورہیں۔انہوں نے فیس بک پوسٹ کے ذریعے سرکار پر تنقید کی ہے۔ چنمے آنند نے پوچھا کہ مودی جی کا شلے کون ہے، کیا ان کی معیشت کی باگ ڈور کسی شلے کے ہاتھ میں ہے؟ یشونت سنہا کے سرکار کی اقتصادی پالیسیوں پر حملہ کو بی جے پی اور سرکار کے تمام سینئرلیڈر یہ کہہ کر مسترد کرنے کے موڈ میں ہیں کہ وہ (سنہا) 2014 سے ہی باغی چل رہے ہیں۔ جب سے انہیں مودی سرکار میں شامل کرنے کے بجائے کنارے لگادیا گیا۔ اس لئے سرکار میں انہیں کچھ اچھا نہیں دکھائی دے رہا ہے اور نہ دکھائی دے گا۔ لیکن سیاسی گلیاروں میں ان دنوں الگ طرح کی بحث شروع ہوگئی ہے۔ کہا جارہا ہے یشونت سنہا اکیلے نہیں ہیں اس بار جب انہوں نے سرکار پر حملہ بولا تو پارٹی کے ساتھ ساتھ سنگھ کے بھی کچھ نیتاؤں کی حمایت ملی ہے۔ یہ لوگ بھی کافی عرصے سے جیٹلی کے کام کاج سے خوش نہیں چل رہے ہیں۔ کئی موقعوں پر ان کی ناخوشی سامنے بھی آچکی ہے۔ اس بات ان لوگوں نے سنہا کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ دیکھنے والی بات ہوگی کہ انجام کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟