بڑھتی مہنگائی اور پستی جنتا

جب گڈس اینڈ سروسز ٹیکس یعنی جی ایس ٹی لایا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ اس سے چیزوں اور سروسز کی قیمتیں کم ہوں گی۔ مگر اس کے تو ابتدائی مرحلہ میں ہی مہنگائی پچھلے پانچ مہینے میں اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پیاز سمیت سبزیوں و دیگر غذائی اجناس کے داموں میں تیزی کے چلتے ماہ اگست میں تھوک قیمت پر مبنی افراط زر بڑھ کر چار مہینے میں سب سے اونچی سطح 3.24 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ بہت سی عام چیزوں پر ٹیکس کی شرح کافی کم رکھی گئی ہے اس کے باوجود خوردہ بازار میں چیزوں کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ جی ایس ٹی کا ابتدائی مرحلہ شروع ہونے کی وجہ سے بہت سارے خوردہ کاروباری مشکل میں ہیں اور وہ اپنے ڈھنگ سے چیزوں کے دام بڑھا رہے ہیں لیکن تھوک قیمت انڈکس میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 3.36 پہنچ گئی تو یہ محض غلط فہمی کے چلتے نہیں ہوا۔ روز مرہ استعمال ہونے والی گیس ، پھلوں و سبزیوں کے دام بڑھے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکسوں کی دوہری مار کے چلتے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ سینٹرل ٹیکس سسٹم لاگو ہونے کے بعد بھی مہنگائی پر قابو نہیں پایا جارہا ہے تو اس سے نمٹنے کے کیا قدم ہونے چاہئیں؟ دیش میں معیشت کی سستی نے پریشانی اور بڑھا دی ہے۔ بے روزگاری کے بڑھتے اعدادو شمار پریشان کرنے والے ہیں۔ صنعتیں بند ہورہی ہیں، بازار میں گراہک غائب ہیں، تہواروں کا سیزن سر پر ہے اور دوکانیں خالی پڑی ہیں۔ آج یا تو جنتا کے پاس پیسے کی کمی ہے یا پھر ان کو مہینے کے خرچ پورے کرنے کے بعد کچھ پیسہ بچتا ہی نہیں ہے۔ نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد بہت سے کاروبار پہلے ہی متاثر ہوچکے ہیں اس کے بعد جی ایس ٹی نافذ ہونے سے بہت سارے کاروباریوں کے لئے لال فیتاشاہی درد سر بنی ہوئی ہے۔ سرکار تھوک قیمت انڈیکس کی بنیاد پر مہنگائی کا اسٹنڈرڈ ناپتی ہے، جب خوردہ بازار میں چیزوں کی قیمتیں اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ جی ایس ٹی کونسل ٹیکس سسٹم کو بہتر بنانے کی کوشش اگر نہیں ہوگی تو مہنگائی اور ترقی شرح دونوں کو کنٹرول میں رکھنا مشکل بنا رہے گا۔ بڑھتی مہنگائی آج پورے دیش کی جنتا کے سامنے سب سے بڑا سوال بنا ہوا ہے۔ سرکار کو اس طرف جلد توجہ دینی ہوگی کیونکہ کسی بھی جمہوری سسٹم میں روٹی، کپڑا اور مکان آج بھی ترجیح رکھتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟