لوک سبھا اسمبلی چناؤ ایک ساتھ کرانے کی وکالت

ایک دیش ، ایک چناؤ کی مانگ نے ایک بار پھر سے زور پکڑ لیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی تو کئی موقعوں پر اس کی وکالت کرچکے ہیں۔ اب چناؤ کمیشن نے بھی لوک سبھا ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ کرانے کی وکالت کی ہے۔ دیش کے چناؤ کمشنر او پی راوت کے تازہ بیان سے یہ بحث تیز ہوگئی ہے کہ کیا اگلے عام چناؤ کے ساتھ اسمبلی چناؤ کرائے جائیں گے؟ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کمیشن کا کام چناوی عمل اور اس کی تیاریاں ہیں۔مرکزی حکومت کی دلچسپی کے سبب الیکشن کمیشن کو بھی اس پر اپنا رخ بتانا پڑا ہے۔ مرکزی حکومت نے جاننا چاہا تھا کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ کرانے کی تجویز پراس کی کیا رائے ہے اور کیا ایک ساتھ چناؤ کرانے میں چناؤ کمیشن اہل ہے؟ الیکشن کمیشن نے اپنی رضامندی ظاہر کردی ہے ساتھ ہی بتایا ہے کہ ایسی صورت میں کتنے مزید وسائل کی ضرورت پڑے گی لیکن ساتھ ساتھ چناؤ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ایک ساتھ چناؤ کرانے کیلئے سبھی سیاسی پارٹیوں کی رضامندی ضروری ہے۔ چناؤ کمیشن سے 2015 میں اس بارے میں رائے مانگی گئی تھی اور تب بھی اس نے یہی کہا تھا۔ دراصل یہ صرف سیاسی یا اخلاقی تقاضہ بھر نہیں ہے۔ اگر لوک سبھا اور ساری اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ کرانے ہوں تو عوامی رائے دہندگان قانون میں ترمیم کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ آئینی ترمیم پاس کرانے و ایک ساتھ چناؤ کی مانگ کو بلا تنازعہ بنانے کے لئے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ اسے ممکن بنانے کیلئے اس پر وسیع بحث بھی ضروری ہے کہ ایک ساتھ چناؤ کے کیا فائدے نقصان ہوسکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ایک ساتھ چناؤ کرانے کے کئی فائدے ہیں کیونکہ بھارت میں چناؤ سال بھر چلنے والے پروگرام کی طرح ہوتے ہیں اور یہ ایک مشکل قواعد ہے۔ اگر اس کارروائی میں پنچایت چناؤ کو شامل کردیں تو یہ دائرہ اور زیادہ وسیع ہوجاتا ہے اس لئے ان سب سے بچنے کے لئے یہ رائے صحیح ہے۔ ویسے بھی 1968 تک دیش میں لوک سبھا اسمبلی چناؤ ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ جہاں تک بات ہے اس کے فائدے کی تو یقینی طور سے معیشت پر خرچ کا بوجھ کم ہوگا۔ ساتھ ہی چناؤ کے دوران بار بار لگنے والی ضابطہ قواعد کی پالیسی کو معذوریت کی صورتحال سے بچایا جاسکے گا۔ وہیں راجیوں کے لئے لوک لبھاون وعدوں کے اعلان سے چناؤ کو متاثر کرنے کے الزامات سے بھی مرکزی سرکار بچے گی۔ پارٹیوں کو بھی بار بارچناؤ کمپین کے لئے پیسہ اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ چناؤ کمیشن ایک چناؤ سے نمٹ نہیں پاتاکہ اسے دوسرے چناؤ کی تیاری میں لگ جانا پڑتا ہے۔ انتظامیہ کی بھی کافی طاقت اور وقت ضائع ہوتا ہے۔ تعلیمی کام پربھی برا اثر پڑتا ہے کیونکہ چناؤ کمیشن میں سب سے زیادہ ٹیچروں کی ہی ڈیوٹی لگاتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ہو کیسے، یعنی اس کے لئے قانون میں ضروری ترمیم اور توقع کے ساتھ عام رائے کی شرط کیسے پوری ہو؟ ابھی تک اپوزیشن پارٹیوں میں صرف کانگریس نے کھل کر کہا ہے کہ وہ جلدی یا ایک ساتھ چناؤ کرائے جانے کے لئے تیار ہے لیکن لیفٹ پارٹیوں کا رخ اس کے الٹ ہے۔ اس کی دلیل ہے کہ مرکزی سرکار لوک سبھا چناؤ کے ساتھ اسمبلی چناؤ کرانے کے لئے ریاستوں کو مجبور نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن کی کئی پارٹیوں کی نگاہ میں ایک ساتھ چناؤ کرانے کا نظریہ غیر ضروری ہے تو کئی اسے فیڈرل ڈھانچے کو چھوٹ پہنچانے والا اور خطرناک نظریہ بھی مانتے ہیں۔ ویسے ایک ساتھ چناؤ تھوڑی بہت دقتوں کے باوجود دیش کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہوگا جب سبھی پارٹیاں اس مسئلے پر عام رائے بنائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟