ہر جمہوریت میں اپنا جنتر منتر ہے

پچھلے قریب ڈھائی دہائی سے جنتر منتر آندولن کاریوں کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن نیشنل گرین ٹریبیونل کی تازہ ہدایت کے بعد جنتر منتر پر دھرنے اور مظاہرے پرروک لگ جائے گی۔ این جی ٹی نے جنتر منتر روڈ پر دھرنا ، مظاہرے کرنے پر مستقل روک لگاکر پیغام دیا ہے کہ جمہوریت میں دھاک اور اظہار رائے آزادی مکمل نہیں ہے۔ وہ صاف ستھرے اور خاموش زندگی کے حق سے بڑی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی ایک شاخہ کی شکل میں کام کرنے والا این جی ٹی آلودگی ہٹانے اور ماحولیات کو بچانے اور صاف صفائی قائم رکھنے کے حکم دیتا رہتا ہے۔ سرکاریں کبھی اسے لاگو کرتی ہیں اور کبھی منہ پھیر لیتی ہیں۔ اس کے باوجود این جی ٹی کا 1981 میں ہوائی آلودگی قانون کی خلاف ورزی کی بنیاد پر دیا گیا یہ حکم فوری طور سے لاگو ہوگیا ہے۔ این جی ٹی نے جس سبب جنتر منتر کو مظاہرین سے آزاد کرانے کی ہدایت دی ہے اس سے نااتفاقی نہیں ظاہرکی جاسکتی۔ ہمیں اظہار رائے کی آزادی بھی چاہئے اور صاف ستھری ماحولیات بھی، مسلسل لاؤڈ اسپیکر چلنے کے سبب وہاں آواز آلودگی تو ہے ہی، کھلے میں نہانے ،جانوروں کو باندھ کر رکھناو کوڑا پھینکنے کے سبب مسئلہ پیچیدہ ہوگیا ہے لیکن یہ بھی ماننا تھوڑا مشکل ہے کہ مظاہرے کی جگہ کو رام لیلا میدان منتقل کرنا مسئلے کا حل ہے۔ بورڈ کلب میں مظاہرین کے ذریعے گندگی پھیلانے کے سبب ہی تحریکوں کی جگہ بدل کر جنتر منتر کردیا گیا تھا۔ مسئلہ مظاہرین کا اتنا نہیں ہے جتنا سسٹم کا ہے۔ جن لوگوں پر جنتر منتر کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری تھی انہوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ این جی ٹی کے اس فیصلے کا مختلف انجمنوں اور مظاہرین نے مخالفت کی ہے اور فیصلے کو سپریم کورٹ میں چنوتی دیں گے۔ جنتر منتر پر ڈٹے مظاہرین کا کہنا ہے کہ این جی ٹی نے جگہ چھوڑنے کے لئے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔ اسی دوران وہ اپنی کارروائی کریں گے کیونکہ نئی پیڑھی جنتر منتر کی وید شالہ کے بجائے آندولن کاریوں کے گڑھ کی شکل میں زیادہ جانتی ہے اور انا ہزارے کے کرپشن مخالف تحریک سے لیکرنربھیہ کے ساتھ ہوئے ظلم کے خلاف ناراضگی جیسی کئی تحریکوں کا جنتر منتر گواہ رہا ہے لہٰذا اسے مظاہرین سے آزاد کرانے کا یہ سندیش بھی نہیں جانا چاہئے کہ مخالفت کی آواز کو دبایا جارہاہے اور صرف یہ ہی نہیں پارلیمنٹ کے نزدیک ہونے کے سبب دیش کے کسی بھی حصے میں دہلی میں اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے والے لوگ یہاں آتے ہیں، بلکہ اس دوران ہمارے کمزور سسٹم کی علامت بھی بن گیا ہے جس کے ایک کونے میں اگر کوئی برسوں سے شراب کے خلاف آندولن کررہا تھا تو کہیں پولیس مظالم کے خلاف ایک خاتون بیٹھی ہے ہر دیش میں ایسی ایک جگہ ہے جنتر منتر جہاں سے جنتا اپنی آواز اٹھا سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟