معیشت کے دو اہم ترین اشوز : نوکریاں اور مہنگائی

اقتصادی پالیسیوں کو لیکر حکومت کوکٹہرے میں کھڑا کرنے والے سینئر بھاجپا نیتا یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ ابھی لوک سبھا چناؤ میں نوکریوں کی کمی اور بے روزگاری بڑا اشو ہوگا۔ دوسری طرف سابق وزیر اور جرنلسٹ و مصنف ارون شوری نے بھی نوکریوں کے اشو کو لیکر سرکار پر تنقید کی ہے۔ ایک پروگرام میں انہوں نے کہا کہ سیاستداں اپنے فیصلوں کی وجہ سے پرکھے جاتے ہیں نہ کہ انہوں نے کیا کہا اور کیا کیا۔ شوری نے کہا مدرا یونجنا کے تحت 5.5 کروڑ ملازمتوں کا دعوی کیا گیا تھا لیکن اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ہی 15 لاکھ نوکریاں چلی گئیں۔ انہوں نے کہا سرکار نے ہر سال 2 کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ بی جے پی کے لئے کیا 2019 لوک سبھا چناؤ مشکل ہوگا، کیا حکمراں پارٹی رام مندر ، یکساں سول کوڈ اور دفعہ 370 جیسے اشوز پر ووٹوں کا پولارائزیشن کرنے کی کوشش کرے گی؟ جواب میں یشونت سنہا کہتے ہیں کہ چناؤ میں 18 مہینے باقی ہیں اور ابھی اس سوال کا جواب دینا جلد بازی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے معیشت میں دو اشو ہیں ایک ہے نوکریاں اور دوسری بڑھتی قیمتیں۔ہندوستانی ووٹروں کو فکر ہے کہ میرے بیٹے کو نوکری ملے گی یا نہیں؟ اس سے بے چینی بڑھتی ہے۔ جہاں تک روزگار کا سوال ہے ،یہ ایک اہم اشو ہوگا۔ گھر گھر بے روزگاری سے متاثر ہوگا۔ سال2013 میں چناؤ کمپین کے دوران وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آئے گی تو 1 کروڑ نوکریوں کے مواقعہ پیدا ہوں گے۔ اس کے ایک سال بعد ہی بھاجپا مرکز میں بھاری اکثریت سے برسر اقتدار آگئی۔ اس سال جنوری میں بھارت کے اقتصادی سروے نے اشارہ دیا تھا کچھ چیزیں ٹھیک نہیں چل رہی ہیں اور روزگار اضافے میں سستی دیکھنے کو ملی ہے۔ نئی سرکار کے اعدادو شمار دکھاتے ہیں بے روزگاری کی شرح 2013-14 میں 4.9 فیصد سے بڑھ کر 5 فیصد تک ہوگئی ہے لیکن یہ تصویر حقیقت میں اور بھی تشویشناک ہوسکتی ہے۔ حال ہی میں ماہر اقتصادیات بنوچ ابراہم کی ایک اسٹڈی جاری ہوئی ہے۔ اس میں لیبر بیورو کے ذریعے اکٹھا کئے گئے نوکریوں کے اعدادو شمار کو استعمال کیا گیا ہے۔ اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ 2012 اور 2016 کے درمیان بھارت میں روزگار میں بے تحاشہ کمی آئی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ 2013-14 اور 2015-16 کے درمیان دیش میں موجود روزگار میں بھی بھاری کمی آئی ہے۔آزاد بھارت میں شاید پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ ذرعی سیکٹر میں جہاں بھارت کی آدھی آبادی روزی اور روزگار کے لئے اسی پر منحصر ہے بہت سے لوگ زمین کے چھوٹے چھوٹے حصوں پر فصل پیدا کررہے ہیں وہاں نوکریاں ختم ہورہی ہیں۔ اس پر خوشک سالی اور فصل کی صحیح قیمت نہ مل پانے سے لوگ کھیتی کسانی سے دور جارہے ہیں اور تعمیرات اور دیہی مینوفیکچرنگ میں روزگار تلاش رہے ہیں۔ چیک کنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے ایک مطلع کے مطابق 2011 سے 2015 کے درمیان 2.6 کروڑ نوکریاں ختم ہوگئی ہیں۔ ادھر لگاتار چھٹی سہ ماہی میں گرتی ہوئی جی ڈی پی نے گذشتہ اپریل۔ جون کی سہ ماہی میں نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں جی ڈی پی میں سب سے کم 5.7 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ پچھلے سال نوٹ بندی اس سال جولائی میں جی ایس ٹی نے جزوی طور سے روزگار مواقعوں کے پیدا ہونے میں گراوٹ میں گھی کا کام کیا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ روزگار پیدا کرنے والے ذرعی اور تعمیراتی اور نجی کاروبار والے سیکٹر بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں اور روزگار کو بھاری جھٹکا لگا ہے۔ فی الحال 2.6 کروڑ ہندوستانی معمولاتی طور پر روزگار کی تلاش میں بیٹھے ہیں۔ یہ تعداد موٹے طور پر آسٹریلیا کی آبادی کے برابر ہے۔ غریبی اور سماجی سلامتی سسٹم نہ ہونے کے چلتے زیادہ تر لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے خود کوشش کرنی پڑ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کل لیبر پاور کا 80 فیصد حصہ بکھرا اور غیر منظم صنعتوں میں کام کرتے ہیں جہاں کام کرنے کے حالات بہت ہی خراب ہوتے جارہے ہیں اور ویسے بھی کام کرنے والوں کو بہت کم مزدوری ملتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟