کم جانگ : کبھی بھی نیوکلیائی جنگ چھیڑ سکتا ہے

ایک سرپھرا ڈکٹیٹر آج پوری دنیا کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ میں بات کررہا ہوں نارتھ کوریا کے پاگل تانا شاہ کم جنگ کی۔ نارتھ کوریا نے اقوام متحدہ میں دھمکی دی ہے کہ کسی بھی وقت نیوکلیائی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں نارتھ کوریا کے نائب ہائی کمشنر کم ان ریانگ نے یہ دھمکی اقوام متحدہ کی کمیٹی کے سامنے دی ہے۔ کم ریانگ نے یہ کہہ کر کوریا جزیرے پر کشیدگی اتنی بڑھا دی ہے کہ نارتھ کوریا اور امریکہ کے درمیان کب نیوکلیائی جنگ چھڑ جائے کہنا مشکل ہے۔ ایک نا سمجھ یا سنکی پن کی حد تک جا چکا انسان کتنا خطرناک ہوسکتا ہے یہ کم جانگ کی حرکتوں سے پتہ چلتا ہے۔ ریانگ نے اقوام متحدہ کی تخفیف اصلاح کمیٹی کے سامنے کہا کہ ان کا دیش اکلوتا ایسا دیش ہے جس کے خلاف امریکہ نے نیوکلیائی حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ کی حکومت ان کے حکمراں کے خلاف خفیہ کارروائی شروع کرنے کی کوشش میں ہے۔ خیال رہے کہ نارتھ کوریا اب ایک مکمل نیوکلیائی کفیل دیش بن چکا ہے۔ یہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔ اس کے پاس ایسے خطرناک ہتھیار اور نیوکلیائی بم اور انٹر کانٹینیٹل میزائل موجود ہیں، جس کی مار امریکہ تک ہوسکتی ہے۔ اوپر والا نہ کرے اگر کوئی نیوکلیائی جنگ چھڑتی ہے تو اس کے خطرناک نتیجوں سے پوری دنیا متاثر ہوسکتی ہے۔ ادھر امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی کم سر پھرے نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نارتھ کوریا کو پوری طرح سے تباہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ یہ ہی نہیں ٹرمپ نے کم کو راکٹ مین، پاگل آدمی اور سنکی جیسے القاب سے بھی نوازا اور کہا تھا بدامن ،جرائم پیشہ کے گروہ سے گھرا راکٹ مین اور اپنی اپنی حکومت کے فدائی مشن پر نکل چکے ہیں۔ امریکہ بار بار چین پر دباؤ بنا رہا ہے کہ وہ کم جانگ کو کنٹرول میں رکھے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ نارتھ کوریا کی نیوکلیائی ترقی کے پیچھے چین کا ہی اشتراک ہے اور چین ہی کم جانگ کو اکسا رہا ہے۔ چین نے بھی دکھاوے کے لئے نارتھ کوریا سے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کم جانگ جیسے سنکی تاناشاہ کسی سے ڈر ہی نہیں سکتے۔ ایسے میں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کوئی ایسی غلطی اسے اس قدر نا اکسا دے کہ ہمیشہ ٹرائیگر پر انگلی لگائے بیٹھا یہ شخص کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جو پوری دنیا کو بھگتنا پڑے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے پاگل تاناشاہ کو لمبے عرصے تک اس کے حال پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ چین سمیت نارتھ کوریا کے نزدیک دیگر دیش کم جانگ کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ اسے امریکہ سے ٹکرانے کی ضد چھوڑنی ہوگی اور اپنی دیش کی ترقی پر توجہ دینی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟