داؤں پر گجراتی ساکھ اور گجرات ماڈل

ہماچل ریاست میں انتخاب کے اعلان کے 13 دن بعد بدھ کو گجرات میں اسمبلی چناؤ کی تاریخ بھی اعلان ہوا ہے . اس بار بھی دو مرحلے میں انتخاب ہوگا. 9 دسمبر کو 89 سیٹوں پر اور 14 دستمبر کو باقی 93 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی نتیجہ 18 دسمبر کو ہی اعلان کیا جائے گا. ملک میں جی ایس ٹی کے بعد ہونے والا یہ پہلا انتخاب ہوگا. اپوزیشن پارٹیوں کا الزام ہے کہ گجرات میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان دیر سے اس طرح کیا گیا تاکہ بھاجپا کو فائدہ پہونچایا جا سکے. اگرچہ، انتخابی کمیشن نے ہماچل کے ساتھ گجرات چناؤ کے اعلان نہ کرنے کے بارے میں صفائی دی ہے گجرات کے اسمبلی اسمبلی کے انتخابی بگل بجنے کے ساتھ حکمراں بھا جپا کے مضبوط ترین پی ایم مودی۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی جوڑی اوراپو زیشن خاص طور پر کانگریس کی اگنی پریکشا کا دور شروع ہوا ہے. انتخابی نتائج نہ صرف آنے والے لوک سبھا چناؤ کا فیصلہ، بلکہ ملک کی مستقبل کی سیاست کی اسکرپٹ کا آغاز کرنا بھی ہوگا. چونکہ سوال حکمرانی، بی جے پی اور مخالف دونوں کے لئے پوزیشن کرو یا مرو کی ہے، لہذا، دونوں طرف سے اپنی مکمل طاقت کو جھونک دیا. نریندر مودی کی پی ایم بننے کے بعد بھاجپا 21 اسمبلی انتخاب لڑر ہے ہیں. ان میں سے بی جے پی نے 12 میں جیت حاصل کی ہیں۔کامیابی کے اعداد و شمار کا کوئی کسی کو بھی سکون دے سکتا ہے. اگرچہ ایک طرح سے، تو دسمبر میں ہونے والے گجرات کے انتخابات میں بی جے پی نہ صرف بلکہ نریندر مودی کیلئے 2014 کے بعد سے سب سے اہم انتخابات ہیں. گجرات میں بھاجپا جب اترے گی تو 2014 کے بعد یہ ایسا ہی ہوگا جس میں پارٹی کی اکثریت کی حکومت چل رہی ہے. ری۔الیکشن میں جیت کی کوشش میں جٹی بھا جپا یہاں اتحادیوں کا بھی ساتھ نہیں ہیں. 2014 کے بعد لوک اسمبلی انتخابات، بی جے پی آندھرا پردیش ، اروناچل اوڈیشا، سکیم، تمل ناڈو، جموں کشمیر، آسام، کیرول، پڈوچیری، مغربی بنگال، گووا، منی پور، پنجاب، جھارکھنڈ، ریاستوں میں متحدہ چناؤ لڑچکی ہیں مودی اور شاہ کی جوڑی کی قیادت کے دوران بی جے پی نے 21 اسمبلی کے انتخابات میں سے 12 میں جیت درج کی ہے.ان 21 ریاستو ں میں 14 میں کانگریس یا کانگریس کی قیادت والی سرکاریں تھی ، لیکن دوبارہ اقتدار میں ان کے پاس صرف دو ریاستیں ہیں اور اروناچل ریاست اور پڈوچیری ہیں ان میں . دسمبر میں ہونے جا رہا ہے، گجرات کے اسمبلی انتخابات کے اثرات کی آزمائش ہوگی . بی جے پی لوک اسمبلی انتخابات کا وقت سے ہی مودی کے چہرے کے ساتھ گجرات کی وقارکا سوال پر انتخابی میدان میں ہے، یہاں تک کہ اہم اپوزیشن کانگریس صوبے میں تقریبا دو دو دہائیوں سے اقتدارمیں بھاجپا کے خلاف ذات پات کے خلاف مساواتوں کو اپنی پارٹی میں کرنے میں جٹی ہے. ریاست میں انتخاب سے ٹھیک پہل قد آور رہنما شکر سنگھ و گھیلا کو کھو دیا ہے. حال ہی میں تین اہم تحریکوں کی وجہ سے بحث میں آنے والی نوجوان چہروں کوشیشے میں اتار نے میں جٹی ہے. اس سلسلے میں پارٹی کو او بی سی کے رہنماالپیش ٹھاکر کو منانے میں مدد ملے تو پارٹی رہنما (دلت ) جگنیش اور پاٹیدارہار دک پٹیل کولانے کی طرف بڑھ رہی ہے. کانگریس کو پتہ ہے کہ گجرات کی ہار نہ صرف امکانی سیاسی مستقبل کے بارے میں پانی پھیرے گی ، بلکہ جلد ہی پارٹی کی کمان سنبھالنے جا رہے راہل گاندھی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگادے گی ۔ کچھ سینئر بزرگ کے رہنماؤں کے اندر خانے مانا ہیکہ وہ اس انتخاب میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل سے نہیں کر سکتے ہیں، لیکن سیٹوں کی تعداد بڑھتی ہے تو یہ راہل کی قیادت میں پارٹی کی مضبوطی کی علامت کے طور پر لیا جائے گا. سونیا کے قریبی احمد پٹیل کی فتح سے پارٹی کے حوصلے میں اضافہ ہوا ہاردک پٹیل الپیش ٹھاکر اور جگینش میوانی کے جڑنے کے امکانات بدل رہے ہیں گجرات کے انچارج اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری اشوک گہلوت نے پارٹی ہائی کمان سے راجستھان سے باہر دی گئی ذمہ داری کو پوری طاقت سے نبھانے میں لگے ہیں . یہ انتخاب فیصلہ کرے گا کہ پی ایم مودی کی طاقت اور بڑھیگی یا یہاں سے گھٹے گی بھاجپاکے گجرات ماڈل بھی داؤں پر ہے ہے. مجموعی طور پر گھمسان ہوگا، دیکھیں کس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے؟ اگر سروے کی بات کریں تو بھاجپا کو جتائے بیٹھے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟