شادی سے نہیں ملتا جنسی تشدد کا حق

شادی کسی کو بیوی کے طور پر جنسی مار پیٹ کرنے کا حق نہیں دیتی۔ یہ رائے زنی دہلی ہائی کورٹ نے گذشتہ دنوں ازدواجی بدفعلی کے مسئلہ پر دائر عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے نگراں چیف جسٹس گیتا متل و جسٹس سی ہری شنکر کی ڈویژن بنچ نے سماعت کرتے ہوئے فلپن کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شادی کسی عورت پر اس کے شوہر کے ہاتھوں مارپیٹ کرنے کا حق نہیں دیتی۔ ایک این جی او فورم اگینسٹ ٹو مین(فین) نے اس معاملہ میں فریق بننے کے لئے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی۔جس میں کہا گیا ہے کہ شادی عورت اور مرد کے درمیان رضا مندی اور احترام کا مکمل رشتہ ہے اس میں زبردستی جنسی رشتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اہم عرضی گزار فاؤنڈیشن کی طرف سے دلیل پیش کرتے ہوئے کولن گونزاولس نے امریکہ و نیپال کے قانون کا حوالہ دیا۔ اس پر بنچ نے کہا کہ وہ فلپن کے قانون کا حوالہ بھی دے سکتے ہیں۔ مرکزی سرکار نے اس معاملہ میں حلف نامہ دائر کرکہا تھا کہ ازدواجی بدفعلی کو جرم کے زمرے میں لانے سے شادی کا رواج لڑکھڑا جائے گا اور اس کا استعمال شوہر کو پریشان کرنے کے لئے بھی کیا جاسکتا ہے۔ ازدواجی بدفعلی کو ختم کرنے کیلئے اخلاقی و سماجی بیداری لانا ضروری ہے۔ مرکزی حکومت کے ملازم وکیل مونیکا اروڑہ نے کہا تھا کہ یہ یقینی کیا جائے کہ ازدواجی بدفعلی کو شادی کی روایت کو دھکا نہیں پہنچے گا اور اس کا استعمال عورتوں کے ذریعے شوہروں کے خلاف ایک آسان ہتھیار کے طور پر نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہمارے سامنے جہیز، ٹارچر سے متعلق قانون کا بیجا استعمال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ شادی کے رشتوں میں آئی تلخی کسی گڑبڑی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تو ازدواجی روایت ہی خطرے میں پڑ جائے گی، دراصل اس کی طاقت کو نظرانداز کرنا ہے۔ ازدواجی رشتوں میں تشدد، آبروریزی وغیرہ میں روک لگانے سے ازدواجی ادارے کی بنیاد اور مضبوط ہوتی ہے اور دیش میں ہر سال جتنی شادیاں ہوتی ہیں اس میں زیادہ تر بغیر کسی غیر متوقع واقعات کے ایک نئے کنبے کی بنیاد بنتی ہے۔ انگلیوں پر گنی جانے لائق شادیاں ہیں بری خبروں کیلئے جانی جاتی ہیں۔ سخت قانون کی ضرورت ایسی شادیوں کے کھلیائکوں سے نمٹنے کیلئے ہی پڑتی ہے۔ ان سے متاثرہ عورتوں کی تعداد چاہے جتنی بھی کم ہو لیکن شاید ہی کوئی کھلے طور پر یہ کہنے کو راضی ہو کہ انہیں دیش کے قانون کی سرپرستی نہیں ملنی چاہے۔ ایسا کوئی قانون بناتے وقت اس کے بیجا استعمال کے اندیشہ پر بھی غور کیا جائے ۔ جہیز اور گھریلو تشد انسداد قوانین کے کچھ بیجا استعمال ہوسکتے ہیں لہٰذا میریٹل ریپ انسداد قانون بناتے وقت ایسے خدشات کا دھیان رکھنا ضروری ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟