روہنگیا مسلمانوں کی دوردشا کیلئے کون ذمہ دار

وزیر اعظم نریندر مودی نے میانمار کے دورہ پر دونوں دیشوں کے بیچ رشتوں کو اور مضبوط کرنے پر زوردیا۔ اپنے خطاب میں پی ایم مودی نے روہنگیا مسلمانوں کا بھی اشو اٹھایا ہے۔ حالانکہ انہوں نے سیدھے طور پر ذکر نہیں کیا لیکن اشاروں میں میانمار کو یہ پیغام ضرور دے دیا کہ بھارت ان کے اس مسئلہ کے حل میں ہر ممکن مدد کو تیار ہے۔ غور طلب ہے کہ بھارت میں قریب 40 ہزار روہنگیا پناہ گزیں ہے۔ بھارت نے انہیں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حال ہی میں مرکزی مملکت داخلہ کرن ریجو نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے ڈاکومینٹ ہونے کے باوجود روہنگیا پناہ گزینوں کو بھارت میں نہیں رہنے دیا جاسکتا۔ ان پناہ گزینوں کے آتنکی کنکشن کا اندیشہ جتایا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ شرنارتھی نہ صرف ہندوستانی شہریوں کے حقوق پر قبضہ کررہے ہیں بلکہ سکیورٹی کے لئے بھی چنوتی ہیں۔ میانمار میں سب سے بڑے نسلی گروپ برمن یا بیمور کے لوگوں کا دبدبہ رہا ہے۔ ساتھ ہی دیش کے کئی اقلیتی گروپوں کی لڑائی بھی چلتی رہی ہے۔ حالانکہ 2015 میں امن عمل کولیکر جنگ بندی ڈیل کا ایک ڈرافٹ تیار ہوا تھا۔ میانمار کی تذکرہ صرف اب تک فوجی حکمرانی اور آنگ سانگ سوچی کے درمیان جاری لڑائی کو لیکر ہوا کرتا تھا۔ میانمار میں سال1962 سے لیکر 2011 تک فوجی حکمرانی رہی تھی جس میں جنرل نے فوج کی کمان سنبھالی۔ اس نے حریفوں کو کچل دیا۔ دیش میں اقتدار کی منتقلی کے بعد اقلیتی گروپ روہنگیا مسلمانوں کا اشو اٹھایا۔ جنوری 2009 میں تھائی لینڈ نے اپنے ساحل پر پہنچے سینکڑوں روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیج دیا لیکن میانمار نے اپنے یہاں اقلیتوں کے وجود کو ہی مسترد کردیا۔ کئی روہنگیا مسلموں کو انڈونیشیا کے سمندری ساحل پر کشتیوں سے بچایا گیا۔ میانمار کا رکھائن صوبہ روہنگیا مسلموں کو لیکر ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے لیکن یہاں ان کی زیادہ تعداد ہے۔ سال2012 میں مغربی رکھائن صوبہ میں تشدد ہوا اس کے بعد وسطی میانمار اور ماندلے تک تشدد پھیل چکا تھا۔ آخر روہنگیا کے خلاف ہونے والی فرقہ وارانہ تشدد کی کیا وجہ ہے؟ سب سے پہلے زیادتی اور مقامی تنازعات نے روہنگیا اور دوسرے اکثریتی فرقہ کے درمیان جھگڑے کی شروعات کی تھی۔ اس کے بعد ان لڑائیوں نے فرقہ وارانہ شکل اختیار کرلی۔ سب سے بڑا اور پہلا تشدد جون2012 میں ہوا تھا جس میں رکھائن ،بودھو اور مسلموں کے بیچ دنگے ہوئے۔ یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ تشدد کے سبب 200 روہنگیا مسلمانوں کی موت ہوئی اور ہزاروں کو دربدر ہونا پڑا۔ اس خطرناک واقعہ کی شروعات ایک نوجوان بودھ خاتون سے آبروریزی اور قتل کے بعد ہوئی تھی۔ اس کے بعد مارچ2013 کے وسط میں میانمار میں ایک سونے کی دوکان پر جھگڑے کے بعد فرقہ وارانہ تشدد میں 40 لوگ مارے گئے تھے۔ اسی طرح سے اگست 2013، جنوری 2014 اور جون 2014 میں فرقہ وارانہ تشدد ہوا جس میں کئی روہنگیا مرد ،عورتیں اور بچے مارے گئے۔ رکھائن صوبہ میں اکثر بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی رہتی ہے۔ بودھ ریاست میں اکثریت میں ہیں۔زیادہ تر مسلمان خود کو روہنگیا کہتے ہیں، یہ گروپ بنگال کے ایک حصہ میں پیدا ہوا جو جگہ اب بنگلہ دیش کے جام سے جانی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحد سے لگے شہروں میں کئی تشدد کے واقعات ہوئے ہیں جس میں زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔ ایک روہنگیا انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے تشدد کا آغاز روہنگیا نے کیاتھا۔ رکھائن بودھوں نے کہا کہ روہنگیا بنیادی طور سے قصوروار ہیں۔ حالانکہ پورے دیش نے روہنگیا کو مغربی میانمار کا مذہبی اور زبانی اقلیت بتایا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کہہ چکا ہے کہ روہنگیا دنیا کے سب سے ستائی ہوئی اقلیت ہے۔ یہ ابھی تک صاف نہیں ہوا کہ اگر بھارت سے ان روہنگیا مسلمانوں کو نکالاگیا تو یہ کہاں جائیں گے؟ روہنگیا اس وقت بغیر ملک کے ہیں ، نہ میانمار انہیں قبول کرتا ہے اور بنگلہ دیش خود ہی لاکھوں روہنگیا پناہ گزینوں کا گھر بن چکا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو جلا وطن کرنے کا اشو بھارت کی سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے جس پر عدالت نے سرکار سے جواب مانگا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟