اظہار رائے کی آزادی کی ایک اور آواز خاموش کردی گئی

ایک اور صحافی اپنے نظریات کیلئے مارا گیا۔ جرنلسٹ گوری لنکیش کو منگل کے روز ان کے گھر میں گھس کر مار ڈالا گیا۔ ہم سخت الفاظ میں اس گھناؤنے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں۔ بھارت ایک جمہوری دیش ہے جہاں ہر شخص، صحافی کو اپنی بات کہنے و لکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس طرح کے قتل مہذب سماج کے سامنے موجود سنگین خطروں کی ہی نشاندہی کرتے ہیں۔ گوری لنکیش کا قتل ایم ایم کلکرنی، گووند پنسارے اور نریندر وامولکر کے قتل کی یاد دلانے والا ہے۔ 55 سالہ سینئر کنڑ صحافی گوری لنکیش ٹائمس آف انڈیا سمیت مختلف نامور اخباروں میں کام کرنے کے بعد کنڑ زبان میں چھپنے والی ایک ہفت روزہ ’لنکیش ‘ میگزین کی چیف ایڈیٹر تھیں۔ یہ میگزین ان کے والد پی لنکیش نے شروع کی تھی، جو کنڑ کے جانے مانے ادیب اور صحافی تھے۔ والد کی صحافتی وراثت کو آگے بڑھانے کا کام گوری نے ہی اپنے کندھوں پر لے رکھا تھا۔ انہیں ان کے گھر میں گھسنے کے عین پہلے نشانے پر لیکر 7-8 گولیاں داغی گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں گوری اور ان کی میگزین ہندووادی آئیڈیالوجی کی کٹر مخالف تھی۔ میگزین میں بی جے پی سے جڑے دو نیتاؤں کے ہتک عزت مقدمے میں انہیں چھ مہینے کی جیل بھی ہوئی تھی۔ اس کے خلاف اپیل پر بڑی عدالت کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا ہے لیکن گوری نے اپنے ساؤتھ پنتھی احتجاج کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے نکسلیوں سے بھی تعلقات تھے۔ لیکن ان سب کے باوجود گوری کی آئیڈیالوجی کو ایک فریقی نہیں کہا جاسکتا۔ بطور صحافی انہوں نے کانگریسی لیڈروں کے کرپشن کو بھی اجاگر کرنے اور اسے ریاست گیر اشو بنانے میں کبھی قباحت نہیں کی۔ موجودہ سدارمیا حکومت کے ایک طاقتور وزیر بھی ایسے ہی ایک معاملہ میں ان کے نشانے پر آچکے ہیں۔ گوری لنکیش کے قتل کو لیکر کئی سیاسی پارٹیاں جس طرح جج کے رول میں آگئی ہیں اور آخری فیصلہ پر پہنچتی دکھائی دے رہی ہیں اس سے تو یہ ہی ظاہر ہورہا ہے کہ ان کیلئے دلچسپی قاتل کو پکڑنے سے زیادہ قتل کا سیاسی فائدہ اٹھانے میں ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ گوری لنکیش ہندو تنظیموں کی کٹر مخالف تھیں لیکن کیاان کے قتل کیلئے بھاجپا ، سنگھ اور یہاں تک کہ مودی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ یہ تو بی جے پی شکر منائے گی کے کرناٹک میں کانگریس کا راج ہے۔ اگر یہ قتل بی جے پی حکمراں ریاست میں ہوتا تو مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گوری کے قتل کی آزادانہ ،منصفانہ جانچ ہونی چاہئے اور اصل قصوروار یا قصورواروں کو سزا ملے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟