شیو کمار پر انکم ٹیکس محکمہ کی چھاپہ ماری کی ٹائمنگ

بدھوار کی صبح کرناٹک کے بجلی منتری شیو کمار کے ٹھکانوں پر پڑے انکم ٹیکس چھاپوں نے اس سے کہیں زیادہ سرخیاں بٹوریں۔ راجیہ سبھا میں ہنگامہ ہوا۔ عام طور پر ایسے چھاپوں کو اتنی جگہ نہیں ملتی۔ وجہ رہی چھاپوں کی ٹائمنگ، چھاپہ ماری کو لیکر کانگریس پارٹی میں بدھوار کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھاری سیاسی طوفان کھڑا کردیا۔ پارٹی کے نیتاؤں نے چھاپہ ماری کو سیاسی بدلے کی کارروائی اور جمہوریت کے لئے خطرناک بتایا۔ گجرات سے راجیہ سبھا چناؤ کے لئے پرچہ بھرنے والوں میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کے سیاسی سکریٹری احمد پٹیل بھی شامل ہیں۔ بی جے پی انہیں اس بار کسی بھی قیمت پر ہرانا چاہتی ہے۔ حالانکہ پردیش میں کانگریس ممبران کی تعداد اتنی ہے کہ پٹیل کے منتخب ہونے میں کوئی دقت نہیں تھی۔ مسئلہ تب کھڑا ہوا جب دو دن کے اندر 6 ممبران نے استعفیٰ دے دیا۔ بی جے پی کہہ رہی ہے کہ ممبران اپنی مرضی سے استعفیٰ دے رہے ہیں جبکہ کانگریس کے مطابق بی جے پی کے لوگ اس کے ممبران کو نہ صرف ڈرا دھمکا رہے ہیں بلکہ پیسے کا لالچ بھی دے رہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں اپنے ممبران کو محفوظ رکھنے کے لئے کانگریس لیڈر شپ انہیں بنگلورو لے گئی جہاں انہیں ایک ریزارٹ میں رکھا گیا ۔ وہاں ان ممبران کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری انہی ڈی کے شیو کمار کو سونپی گئی جن پر انکم ٹیکس محکمہ کے چھاپہ پڑا۔ اب ان چھاپوں کو لیکر کانگریس پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جم کر ہلہ بول رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے چھاپوں کا اصلی مقصد اس کے ممبران میں خوف پیدا کرنا ہے۔ بہرحال بڑا سوال کانگریس کے الزامات کا نہیں ہے جس پارٹی کے نیتاؤں پر چھاپہ پڑے گا وہ سیاسی رقابت کا الزام تو لگائے گی ہی، اصل معاملہ جانچ ایجنسیوں ان کی کارروائی اور بھروسے کا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انکم ٹیکس ، سی بی آئی اور ای ڈی جیسی سرکاری ایجنسیوں کی تاریخ بے داغ نہیں ہے لہٰذا دعوے کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سرکاریں بدلہ لینے کیلئے ان کا استعمال کرتی رہی ہیں اس لئے کانگریس کے الزام میں سچائی کے جز سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یہ سوال بھی اتنا ہی اہم ترین ہے کہ ہندوستانی سیاست کا جو گھناؤنا چہرہ آج دکھائی دے رہا ہے وہ کس کی دین ہے؟ سیاست کا جرائم کرن یا چناؤ میں کالے دھن کا استعمال کی شروعات کب اور کیسے ہوئی یہ بھی تحقیق کا موضوع ہے۔ ممبران کی خریدو فروخت کر دوسرے کے پالے میں جانے سے روکنے کے لئے ریزارٹ میں قید رکھنے کے واقعہ پہلے بھی ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی ہوں گے۔ ڈی کے شیو کمار پر چاہے جو بھی الزام ہیں ان کے خلاف ٹھیک اسی وقت اتنے بڑے پیمانے پر چھاپہ ماری کی کوئی مضبوط دلیل نہ تو انکم ٹیکس محکمہ کے پاس ہے اور نہ ہی مرکزی سرکار کے پاس۔یہی چھاپہ اگر راجیہ سبھا چناؤ کے بعد عام طور سے پڑتے تو اتنا ہنگامہ شاید نہ ہوتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟