ٹوئنٹی۔20 میچ سے بھی زیادہ دلچسپ رہا گجرات اسمبلی چناؤ

انڈیا ۔پاکستان کرکٹ میچ میں بھی ایسا مزہ نہیں ہوتا جیسا اس بارگجرات کے راجیہ سبھا چناؤ کی تیسری سیٹ پر ہوا۔ پارلیمانی سیاست کی شروعات 40 سال پہلے 1977ء میں کرنے والے کانگریسی لیڈر احمد پٹیل نے اپنی زندگی کے سب سے مشکل چناؤمیں جس طرح جیت حاصل کی ہے اس نے بی جے پی اور خاص کر پارٹی صدر امت شاہ کی چانکیہ پالیسی کو پچھاڑ دیا ہے۔ گجرات کے اس راجیہ سبھا چناؤ میں بی جے پی نے جو بساط بچھائی اس سے صاف ہوگیا تھا کہ یہ مقابلہ محض 2 پارٹیوں کا نہیں ہونے جارہا ہے بلکہ اس کے پیچھے بی جے پی کے چانکیہ امت شاہ اور انڈین نیشنل کانگریس کے چانکیہ احمد پٹیل کی شخصی عداوت بھی ہے۔ گجرات میں بی جے پی کے چانکیہ امت شاہ اور کانگریس کے چانکیہ احمد پٹیل کے درمیان مقابلے میں چانکیہ کے سبھی منتر، سام دام ڈھنڈ بھیت کے چار اصولوں کا استعمال کیا گیا۔ واقعے کو دیکھا جائے تو یہ صاف ہے کہ احمد پٹیل کو ہرانے کے لئے بی جے پی نے ہر ممکن کوشش کی۔ یہاں تک کہ آخری وقت میں جب معاملہ الیکشن کمیشن آف انڈیا پہنچا تو بی جے پی نے قانون منتری روی شنکر پرساد سمیت آدھا درجن وزرا چناؤ کمیشن بھیج دئے، وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ تین گھنٹے میں تین بار ۔ لیکن اس کے باوجود فیصلہ احمد پٹیل و کانگریس کے حق میں گیا۔ امت شاہ کو اپنے حالیہ دنوں کی سب سے بڑی سیاسی شکست اپنے سب سے بڑے سیاسی حریت سے اپنی ہی آبائی ریاست میں کھانے پڑی۔ غور طلب ہے کہ گجرات میں راجیہ سبھا چناؤ کی تین سیٹوں کے لئے چناؤ ہونے تھے۔ اسمبلی چناؤ میں جو نمبروں کی طاقت ہے اس کے حساب سے 2 سیٹیں بی جے پی کا جیتنا طے تھا۔ لڑائی تیسری سیٹ پر تھی۔ اس تیسری سیٹ پر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر اور گاندھی پریوار کے بعد پارٹی کے سب سے بڑے چہرے احمد پٹیل کو اتارا گیا۔ ان امیدواروں کی جیت طے مانی جارہی تھی لیکن گیم تب بگڑ گیا جب شنکر سنگھ واگھیلا نے کانگریس چھوڑ دی۔ اس کے بعد پارٹی کے 6 ممبران اسمبلی باغی ہوگئے اور بی جے پی میں چلے گئے۔ کانگریس نے سنکٹ کو بھانپ لیا کے یہ احمد پٹیل کو دوبارہ راجیہ سبھا میں نہ جانے دینے کی سازش ہے۔ وہ آناً فاناً میں اپنے 44 ممبران کو لیکر کرناٹک چلی گئی۔ معاملہ میں دلچسپ موڑ اس وقت آیاجب کرناٹک کے جس ریزاٹ میں یہ ممبران رکے ہوئے تھے اس پر انکم ٹیکس محکمہ نے چھاپہ ماردیا۔ اس چھاپہ کی گونج پارلیمنٹ تک سنائی دی ۔
کانگریس نے الزام لگایا کہ بی جے پی احمد پٹیل کو ہرانے کے لئے ہر داؤں چل رہی ہے۔ پہلے اس کے ممبران کو خریدا گیا اور اب انکم ٹیکس محکمہ کے ذریعے ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس کو جیت کے لئے ابھی تک 1 ممبر درکنار تھا وجہ جیت کا نمبر 45 ممبران کا تھا۔ دن بھر جاری گہما گہمی کے بعد احمد پٹیل نے 44 ووٹوں کے ساتھ جیت حاصل کرلی۔ اس سے پہلے پارٹی کے دو ممبران کے ذریعے کی گئی کراس ووٹنگ کو لیکر 7 گھنٹے تک گاندھی نگر سے لیکر نئی دہلی تک چلے ہنگامہ کے بعد چناؤ کمیشن نے رات ساڑھے گیارہ بجے دونوں ممبران کا ووٹ منسوخ کردیا اور ووٹوں کی گنتی شروع کرنے کا حکم دیا ۔ اس کے باوجود بھاجپا نے گنتی شروع کرنے میں اڑنگا لگادیا اور رات ڈھیر بجے کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہو سکی۔ قریب 2 بجے نتیجہ آیا۔ چناؤ کمیشن کے فیصلے سے کانگریس نے کاؤنٹنگ سے پہلے ہی لڑائی جیت لی تھی۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس خیمہ احمدپٹیل کی جیت کے تئیں پوری طرح سے مطمئن ہوگیا تھا۔ پارٹی کوجیت کے نمبر 43.5 سے کہیں زیادہ ووٹ ملے۔ کانگریس کو بڑی راحت دیتے ہوئے چناؤ کمیشن نے اس کے ممبران کے ڈالے گئے ووٹوں کے راز کی خلاف ورزی کرنے کے معاملہ میں دیر رات خارج کردیا۔ کمیشن نے چناؤ افسر سے کانگریس ممبر اسمبلی بھولا بھائی گوہل اور راگھو جی بھائی پٹیل کے ووٹوں کو الگ کرکے کاؤنٹنگ شروع کرنے کو کہا۔ چناؤ کمیشن کے حکم کے مطابق پولنگ کارروائی کا ویڈیو فوٹیج دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ دونوں ممبران نے پولنگ کو رازرکھنے کی خلاف ورزی کی تھی۔ قاعدہ یہ ہے کہ راجیہ سبھا چناؤ میں پولنگ کو بیلٹ پیپر پارٹی کے مجاز پولنگ ایجنٹ کو دکھانا ہوتا ہے اس کے بعد بیلٹ باکس میں ڈالتے ہیں۔ ہوا یہ کہ راگھو جی پٹیل اور بھولا بھائی گوہل نے دو سیکنڈ کے لئے بیلٹ پیپر امت شاہ کی طرف کیا۔ کانگریس کے پولنگ ایجنٹ شکتی سنگھ گہلوت نے یہ دیکھ لیا۔ پارٹی نے پہلے ریٹرنگ افسر اور پھر چناؤ کمیشن سے دونوں کے ووٹ مسترد کرنے کی مانگ کی۔ ووٹنگ کا ویڈیو کانگریس کی حمایت میں تھا۔ رندیپ سرجے اولا، پی چدمبرم سمیت 6 لیڈروں نے تین بار چناؤ کمیشن کو دستاویزات سونپے۔ ہریانہ اور راجستھان میں ہوئے ایسے ہیں معاملوں کا حوالہ دیا گیا۔
سپریم کورٹ کا اس اشو پر فیصلہ بھی پیش کیا گیا۔ کانگریس کی پختہ دلیلوں اور ثبوتوں کو بھاجپا مسترد نہیں کرسکی اور چناؤ کمیشن نے کانگریس کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس ایک فیصلہ سے چناؤ کمیشن نے اپنے بھروسے کو ثابت کیا ہے۔ سارا دیش دیکھ رہا تھا کہ چناؤ کمیشن کسی کے دباؤ میں کام کرے گا یا پھر دیش کے آئین کے تحت قاعدے قانون کے مطابق؟ چناؤ کمیشن بی جے پی کے تمام دباؤ اور دلائل کو خارج کرتے ہوئے ایک جھٹکے میں اپنے سارے حریفوں کا منہ بند کردیا ہے۔ آخر کار جمہوریت کی جیت ہوئی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟