آخرکون چوٹی کاٹ کر پھیلا رہا ہے دہشت

مہلاؤں کی چوٹی کاٹنے کے تابڑ توڑ واقعات نے سبھی کو پریشان کردیا ہے۔ آگرہ میں ایک بزرگ خاتون کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ سماج کی اجتماعی بیداری کند ہوجانے کی ایک اور مثال ہے اور ایسا اجتماعی تشدد پھیلا ہے جب آئینی نظریئے پر تالا جڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترقی اور آئینی بیداری کے تمام دعوؤں کے باوجود ہندوستانی سماج کا ایک حصہ آج بھی اندھ وشواس ،جادو ٹونا، ٹوٹکے اور جہالت میں ڈوبا ہوا ہے۔ چوٹی کاٹنے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ منگلوار کی رات و بدھوار کوبھی پانچ لڑکیوں سمیت28 عورتوں کی چوٹی کاٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان میں متھرا میں اور آگرہ میں 4 اور فیروز آباد میں 1، غازی آباد میں 1، دہلی میں 2، گرو گرام میں 6، فرید آباد میں 2 و پلول میں 3 واقعات شامل ہیں۔ عورتوں کی چوٹی کاٹنے کے واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ زیادہ تر دیہات اور انتہائی پسماندہ علاقوں میں ہی سامنے آرہے ہیں۔ متاثرہ عورتوں میں زیادہ تر تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ سائیکلوجسٹ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اندھ وشواس اور جہالت ، پچھڑا پن عورتوں کا اکیلا پن، ان واقعات کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔اس کے پیچھے پختہ بنیاد بھی ہے کہ اب تک کسی نے چوٹی کاٹنے والے کو نہیں دیکھا ہے۔ نہ تو اس میں خاندان کا ممبر ایسا کرتا پایا گیا ہے کہ عورت کو اس کے گھر کے لوگوں نے ایسا کرتے دیکھا۔ ایسے میں پولیس کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ دہلی پولیس نے اب جانچ دو پہلوؤں پر مرکوز کردی ہے۔ پہلی یا تو عورتیں خود اپنی چوٹی کاٹ رہی ہیں یا پھر انہی کے گھر کا کوئی فرد یہ شرارت کررہا ہے۔ حالانکہ پولیس کے اپنے تیز طرار افسر ان ان گتھیوں کو سلجھانے میں لگا رکھے ہیں لیکن نتیجہ فی الحال صفر ہی ہے۔ جنہیں عورتوں کی چوٹی کاٹنے کی بات سامنے آرہی ہے ان کے بیانوں میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔ کسی نے بتایا کہ اس نے پہلے کالی بلی دیکھی اور بے ہوش ہوگئی ، پھر ہوش آیا تو چوٹی کٹی تھی۔ کسی نے کتا دیکھنے کے بعد بے ہوش ہوگئی تو کسی نے کہا کہ اسے کسی نے اندھیرے میں دھکا دیا جس کے سبب وہ گر پڑی اور بے ہوش ہوگئی ۔ جو بات یکساں طور سے صحیح ہے وہ ہے کہ چوٹی کاٹے جانے سے پہلے متاثرہ عورت کا بیہوش ہونا۔ راجدھانی دہلی سمیت اور اس سے لگے ہریانہ ،راجستھان اور اترپردیش میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں اور ان سب کی تفصیلات کم و بیش ایک جیسی ہی ہیں۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں کسی ایک منظم گروہ کا ہاتھ ہے۔ ایسے واقعات کے پیچھے اندھ وشواس کی ہوسکتا ہے تب اور جب میں واقعات دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہوتی ہیں۔ یوں تو اجتماعی شرارت اور اندھ وشواس کے واقعات نہیں ہوئے ہیں اس سے پہلے دیش بھر میں مورتیوں کو دودھ پلانے سے دہلی اور اترپردیش میں منکی مین اور منہ نوچوا کے حملہ اور ممبئی میں سمندر کا پانی میٹھا ہوجانے جیسی افواہیں پھیلائی گئی تھیں جنہیں آئینی کسوٹیوں پر غلط پایا گیا۔ سائیکلوجسٹ اسے اجتماعی شرارت یا اجتماعی کرتوت بتارہے ہیں لیکن اس کا حل کیا ہے اس بارے میں ان کے پاس بھی کوئی پختہ جواب نہیں ہے۔ اس نظریئے سے بھی جانچ کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی گروپ یا تنظیم تو اس کے پیچھے نہیں ہے، جن کا کوئی ذاتی مفاد ہو؟ چوٹی کاٹے جانے کی شکارعورتوں کی میڈیکل جانچ میں کچھ بھی غلط نہیں ملا جس سے لگتا ہے کہ یہ شرارتی اور غیر سماجی عناصر کا کام ہوسکتا ہے، جوعورتوں میں کسی وجہ سے دہشت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت میں ان سارے واقعات کو ناخواندگی قانون و نظم اور عورتوں کے تئیں جرائم کے نظریئے سے بھی دیکھا جانا چاہئے۔ ایسے عناصرکو پکڑنے کے لئے تیز ابھیان چلانے کی ضرورت ہے۔ سرکار ہو یا شہری سماج سبھی کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ آخر بدحالی میں جی رہے ہمارے سماج کا ایک بڑا حصہ کب تک اس طرح کی مصیبتوں میں پھنستا رہے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟