پہلی بار چاروں بڑے عہدوں پر بھاجپا کے نیتا

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر ایم وینکیانائیڈو کے صدر چنے جانے کے بعدپہلی بار دیش کے چار بڑے عہدوں پر بی جے پی اور آر ایس سے جڑے نیتا قابض ہوں گے۔ حالانکہ نائیڈو کے نائب صدربننے سے راجیہ سبھا میں نمبروں کی طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اس سے پارٹی نہ صرف راجیہ سبھا میں اور مضبوط ہوگی بلکہ ان نتیجوں سے پارٹی نیتاؤں کا حوصلہ اور رتبہ بھی بڑھے گا جس کا اثر آنے والے اسمبلی چناؤ پر ہی نہیں بلکہ بھاجپا کے مشن 2019 پر بھی نظر آئے گا۔ دراصل اس سے پہلے جب بھی متحدہ حکومتیں بنی ہیں تک کچھ عہدے اتحادی پارٹیوں کو دئے جاتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ مودی شاہ کی جوڑی نے جان بوجھ کر سبھی عہدوں پر اپنی پارٹی کے نیتاؤں کو ہی دینے کا فیصلہ کرکے اپنی پارٹی کا حوصلہ اور قد اونچا کرنے اور اپوزیشن کا حوصلہ توڑنے کا کام کیا ہے۔ نائیڈو کے نائب صدر بننے کے بعد پہلی بار دیش کے راشٹرپتی اور نائب صدر اور وزیر اعظم اور لوک اسپیکر ایک ہی پارٹی سے ہے۔ کانگریس پارٹی پہلی بار ان چاروں اہم عہدوں سے محروم رہ کر دوسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ نائیڈو کے راجیہ سبھا کے چیئرمین بننے سے بھلے ہی نمبروں کی طاقت سرکار کے حق میں نہ ہو لیکن اس کے باوجود وہاں کی پوزیشن کنٹرول تو کی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نائیڈو کافی تجربہ کار ہیں جس سے انہیں اپوزیشن کو کنٹرول کرنے میں مدد ہی نہیں ملے گی بلکہ بی جے پی کے ایوان سے غائب رہنے والے ممبران کو بھی قابو کر پائیں گے۔ نائیڈو کو یہ عہدہ دینے کا فائدہ ساؤتھ انڈیا میں بی جے پی کے پاؤں پھیلانے کی شکل میں ملے گا۔ اسکے علاوہ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ نائب صدر کے چناؤ نتیجوں کا آنے والے اسمبلی چناؤ پر بھی اثر پڑے گا۔ پارٹی یہ مان رہی ہے کہ جس طرح سے یوپی اتراکھنڈ کے نتیجوں میں ایم سی ڈی میں بی جے پی کی راہ آسان ہی ویسے ہی نائب صدر کے چناؤ کے بعد اب ہماچل پردیش، گجرات اور پھر کرناٹک میں بھی پارٹی کو اکثریت ملنے میں کوئی اڑچن آتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اگر ان اسمبلی انتخابات کے نتیجے یہی رہے تو اس کا سیدھا اشارہ جائے گا کہ مودی ۔ شاہ لیڈر شپ میں بی جے پی کامیاب ہوتی جارہی ہے۔ اس سے بی جے پی پر کوئی اثر ہو یا نہیں لیکن اپوزیشن کا حوصلہ ضرور ٹوٹے گا جس کا آخر کار بی جے پی اور مودی کو ہی فائدہ ملے گا اور 2019 ء کے لوک سبھا چناؤ نتیجے چناؤ سے پہلے طے ہوتے نظرآجائیں گے لیکن وہ چوکس رہتے ہیں کہ اقتدار کے اس لا مرکزیت سے اور اپوزیشن کے ڈھیرہونے سے ہندوستانی جمہوریت کے توازن پر سوال اٹھتے ہیں۔ مودی اور شاہ جیسے دو نیتاؤں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتی برسراقتدار پارٹی کے جمہوریت کو بھی متاثر کرے گا۔ اس وارننگ کے باوجود بھاجپا کا سورج اپنے شباب کے ساتھ چمک رہا ہے اور بھارتیہ سیاست اور جمہوریت پر اس کا اثر مسلسل بڑھ رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟