جنرل وپن راوت ایک ساتھ ڈھائی مورچے پر نمٹنے کو تیار ہیں

ہندوستانی فوج کے تیور میں مسلسل تبدیلی دکھائی پڑ رہی ہے اور بغیر کسی شبہ کے آرمی چیف وپن راوت اس کے مرکز میں ہیں۔ ان کے کچھ فیصلوں سے تنازعہ بھی کھڑا ہوا ہے لیکن تیور نہ تو تنقید سے رکے اور نہ پتھر بازوں سے ۔ فوج کے رخ میں پوری تبدیلی سمجھنے کیلئے حال کے کچھ واقعات پر نظر ڈالنی ہوگی۔ آرمی چیف کے جس فیصلے پر سب سے زیادہ سوال اٹھے وہ تھا میجر لتل گگوئی کو اعزاز دینا۔ میجر نے کشمیر میں پتھر بازوں سے بچنے کے لئے وہیں کے ایک پتھر باز کو فوج کی جیب سے باندھ دیا اور کچھ نام نہاد سیکولر پسندوں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی بتایا ، اس کے باوجود آرمی چیف نے میجر گگوئی کا کھلے عام ساتھ دیا۔ جنرل راوت نے شروع میں ہی صاف کردیا تھا کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے خلاف چلائی گئی مہم کے دوران رکاوٹ پیدا کرنے والے اور پاک یا آئی ایس آئی کا جھنڈا لہرانے والے کو ملک دشمن مانا جائے گا۔ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ آرمی چیف کا ایک اور بڑا فیصلہ یہ سامنے آرہا ہے کہ کشمیر کے شورش زدہ علاقوں میں گھیرا بندی اور تلاشی کارروائی چلنا۔ وادی میں قریب 15 سال بعد فوج نے جارحانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کے لئے یہ قدم اپنایاہے۔ کنٹرول لائن اور آس پاس سے وابستہ علاقوں میں آئے دن گھس پیٹھیوں اور پاک فوجیوں کو مارا جارہا ہے۔ جنرل راوت یہیں نہیں رکے انہوں نے کہا کہ ہندوستانی فوج ڈھائی مورچے پر جنگ لڑنے کے لئے ہمیشہ تیار ہے۔ انہوں نے جس طرح سے ڈھائی مورچے لفظ کا استعمال کیا وہ اپنے آپ میں کافی دلچسپ اور دور اندیش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستانی فوج ایک ساتھ چین اور پاکستان سے تو ٹکر لے سکتی ہے ساتھ ہی وہ دیش کے اندر ہونے والی کسی بھی اتھل پتھل سے بھی آسانی سے نمٹ سکتی ہے۔ اس میں چین اور پاکستان دو مورچے ہیں اور اندرونی اتھل پتھل باقی کا آدھا مورچہ ہے۔ یقینی طور پر پاکستان اور چین کے خلاف جو دو مورچے ہیں وہ بہت بڑے ہیں۔ یہ دونوں پڑوسی دیش ہے جن سے ہمارا پرانا سرحدی جھگڑا ہے۔ دونوں ہی نیوکلیائی طاقت کفیل دیش ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ پاکستان ایک ناکام دیش مانا جاتا ہے جبکہ چین ایک ترقی یافتہ دیش ہی نہیں بلکہ دنیا کی ایک اقتصادی و فوجی بڑی طاقت کی شکل میں شمار کیا جاتا ہے۔ اتنے تضاد ہونے کے باوجود بھارت کے خلاف دونوں کو ایک طرح کا فوجی گٹھ جوڑ بھی ہے جو ان دنوں بھارت کے لئے بڑی تشویش کا موضوع بھی ہے۔ اس خبر نے یہ پریشانی اور بڑھا دی ہے کہ چین پاکستان میں اپنا فوجی اڈہ بنانے جارہا ہے۔ اگر ہماری فوج یہ مانتی ہے کہ وہ ان ساری چنوتیوں کا ایک ساتھ سامنا کرنے کے لئے تیار ہے تو یہ ہمارے لئے سلامتی کا ایک بڑا بھروسہ بھی ہے۔ جنرل وپن راوت کی ہمت اور صاف گوئی کیلئے ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟