کیا یوپی میں وکاس سے زیادہ جاتی واد حاوی رہے گا

یوپی کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ یہاں ووٹر نہ تو نیتا کو اور نہ ہی ترقی جیسے اشوپرووٹ دینا ہے یہاں ووٹ ذات کی بنیاد پر دئے جاتے ہیں۔ کم سے کم سابقہ اسمبلی چناؤ میں تو یہی حالت رہی تھی۔ یوپی اسمبلی میں جس پارٹی کو30 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں گے جیت اس کی تقریباً طے ہوگی۔ لیکن یہ 30 فیصد ووٹ چاری بڑی برادریوں کے درمیان بٹے ہوئے ہیں۔ 23 فیصد اگڑی جاتی کے ہیں تو 41 فیصد پسماندہ جاتی کے۔ 21.1 فیصدی دلت ہیں تو 19.3 فیصدی مسلمان ہیں۔ اب تک تو ملائم یہاں یادو کے رہنما بنے ہوئے تھے اور مایاوتی دلتوں کی۔ پسماندہ طبقات کے لئے بھاجپا نے کیشو موریا کو صدر بنایا ہے تو برہمنوں کے لئے کانگریس نے شیلا دیکشت کو آگے کیا ہے۔ ذات کے اس کھیل کو کھل کر مایاوتی ہی تسلیم کرتی ہیں۔ انہوں نے سبھی امیدواروں کی ذات پر مبنی فہرست جاری کرکے یہ ثابت کردیا ہے۔ ذات کے اس چکرویو کی وجہ سے کانگریس 27 سال سے یوپی میں اقتدار سے باہر ہے وہیں بھاجپا 14 سال سے۔ حالانکہ لوک سبھا چناؤ میں پولارائزیشن میں ساتی ذاتوں کو متحد کردیا تھا یہی وجہ ہے کہ2012ء اسمبلی چناؤ میں 15فیصدی ووٹ پانے والی بھاجپا نے لوک سبھا میں 42.43 فیصد تک ووٹ لاکر 80 میں سے71 سیٹیں جیت لیں تھیں وہیں 21 فیصدی دلت ووٹر ہونے کے باوجود مایاوتی کی پارٹی کا کھاتہ تک نہیں کھل سکا۔ اسمبلی چناؤ کے بگل بجنے کے ساتھ اترپردیش میں چناوی بساط کی گوٹیاں چلنی شروع ہوگئی ہیں۔ ہر ایک سیٹ پر جیت کا نمبر طے کرنے کیلئے ضرب ،تقسیم شروع ہوگئی ہے۔ کچھ پارٹیوں نے امیدواروں کا انتخاب کرلیا ہے تو کچھ پارٹیاں ٹکر کا امیدوار اتارنے کے چکر میں ہیں۔ سیاسی پارٹی ہرسیٹ پر تمام ضرب۔ تقسیم کر امیدواروں کو اتارتی ہیں تاکہ جیت ان کی پارٹی کے کھاتے میں آئے۔ پولنگ کا دور آتے آتے مقابلہ کانٹے کا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ووٹوں کا فاصلہ کم ہوجاتا ہے جس سے سیاسی پارٹیوں کی سیٹوں میں کافی فرق آجاتا ہے۔ آخر کار 4سے5 فیصد ووٹوں کے کم زیادہ ہونے کی صورت میں پچھلے اسمبلی چناؤ میں اسی طرح کے اعدادو شمار سامنے آئے ہیں۔ موجودہ اسمبلی چناؤ میں یہ سین دوہرایا جاتا ہے یا نہیں یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔ یوپی میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہوئے دو اسمبلی چناؤ میں یہ شطرنج دیکھنے کو ملی ہے۔ دونوں ہی اسمبلی چناؤ میں سپا اور بسپا میں کانٹے کا مقابلہ ہوا اور چار پانچ فیصد ووٹ کے فرق سے ایک پارٹی کوسرکار سے باہر اور دوسری کے لئے سرکار بنانے کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ 2007ء کے اسمبلی چناؤ میں سپا کو اپنی سیاسی حریف بہوجن سماج پارٹی کے پانچ فیصد ووٹ کم ملا وہ سرکار بنانے سے بے دخل ہوگئی۔ پارٹی کو 97 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ سپا کو کل ووٹوں کا 25.43 فیصد ووٹ ملا تھا ۔ وہیں بسپا کو 5فیصد زیادہ یعنی 30.43 فیصد ووٹ ملے تھے۔ ووٹ کے اس فرق سے بسپا کی سیٹوں کی تعداد 206 پر پہنچ گئی۔ سال 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں یہی شطرنج دیکھنے کو ملی۔ اس چناؤ میں بسپا کو25.91 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ سپا کو29.13 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور دونوں کے درمیان سیٹوں میں 100 سے زیادہ کا فرق آگیا تھا ۔ اس چناؤ میں بسپا 80 سیٹوں پر سمٹ گئی تھی جبکہ سپا کو224 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔پردیش کے آنے والے اسمبلی چناؤ میں بھی یہی تصویر اگر دوہرائی گئی تو اس بار بھی ووٹ فیصد میں معمولی سا فرق کسی کو جیت تو کسی کی ہارکی وجہ بنا دے گا۔ ایسے میں سبھی سیاسی پارٹیاں سیٹوں اور امیدواروں کے حساب سے ہی حکمت عملی بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ موجودہ چناؤ میں اشو، ماحول کتنا اثر انداز ہوتے ہیں کس طرح سے ووٹوں کا بٹوارہ ہوگا ؟ یہ دیکھنے کی بات ہوگی؟ لیکن دو باتیں صاف ہیں یوپی اسمبلی چناؤ میں اشوز سے زیادہ ذات پات حاوی رہی ہے اور کانٹے کے اس مقابلے میں ہار جیت کا فرق بہت کم ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟